قائد اعظم کو بھی شکریے کا موقع دیں

220

بابائے قوم کا یوم ولادت 25 دسمبر کو منایا گیا‘ روایتی بیانات کو گرد جھاڑ کر نکالا گیا اور مختلف ناموں سے جاری کردیا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ بھارت کے حالات بھی کام کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے نام سے بیان جاری کرنے والوں نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک قائد اعظم کے نظریے کی تصدیق ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ محمد علی جناح کو یقین تھا کہ بھارت کے انتہا پسند ہندو مسلم اقلیت کو عزت و وقار کے ساتھ نہیں رہنے دیں گے۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ نوجوان قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی قائد اعظم کے وژن کی حقیقی علمبردار ہے۔ بلاول زرداری کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ دو قومی نظریے کی افادیت مزید واضح ہورہی ہے۔ ان بیانات میں سب سے زیادہ وزنی شخصیت آرمی چیف کی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دو قومی نظریے پر پاکستان کی تخلیق ایک حقیقت ہے۔ انہوں نے صرف بیان ہی نہیں دیا خود مزار قائد پہنچے اور کہا کہ قائد اعظمؒ کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ملک کو آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان پر قائد اعظم کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
ہر سال قوم کو بتایا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا تھا۔ قائد کا وژن بھی تھا اور مختلف ادوار میں بھارت کی حکومتوں کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ رویے پر یہ کہا جارہا ہے کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ دو قومی نظریہ زندہ ہے۔ اس بات سے کس کو انکار ہے کہ قائد اعظم کا وژن تھا۔ اس سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تخلیق ایک حقیقت ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک قائد اعظم کے نظریے کی تصدیق ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قائد اعظم کا وژن کیا تھا۔ قوم کو یہ بھی تو بتایا جائے کہ دو قومی نظریہ کیا تھا۔ قائد اعظم کے اصول کیا تھے۔
معاملہ یہ ہے کہ سال میں ایک دن قائد اعظم یاد آتے ہیں، ان کا وژن یاد آتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ قائد اعظم کا نظریہ ان کے اصول، ان کا وژن پاکستان میں اجنبی ہیں، قائد اعظم ایک اصول پسند انسان تھے، انہوں نے مرتے دم تک اصولوں کی پاسداری کی، اصغر خان ائر ایمبولینس لے کر پہنچے لیکن قائد نے انہیں یہ کہہ کر منع فرمایا کہ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ اندازہ کریں قائد نے بستر علالت سے جو پیغام دیا تھا اس کے برخلاف اس ملک میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا، جنرل پرویز مشرف نے براہ راست وہ کام کیے جو ان کے کرنے کے نہیں تھے۔ اور اب بھی بالواسطہ وہی کام ہورہے ہیں جو ان کے نہیں ہیں۔ ایسا ہوگا تو خرابیاں تو بڑھیں گی۔ قائد اعظم کا وژن ایک منصفانہ معاشرہ تھا، لیکن کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ پاکستان میں معاشرہ منصفانہ ہے۔ غریب کو تھانے میں اطمینان، عدالت میں انصاف، تعلیمی اداروں میں علم، سڑکوں پر تحفظ، کاروبار میں سکون، نظام میں یکسانیت مل رہی ہے؟ ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ قائد اعظم کے یوم ولادت پر ہر سال ان کے وژن، نظریے اور خیالات کا تذکرہ کرنے والے رہنما یہ بتائیں کہ قائد اعظم کا نظریہ، وژن اور فکر کہاں گئی، کیا قائد نے وی آئی پی کلچر کے لیے الگ ملک بنایا تھا؟ یا مارشل لائوں کے لیے بنایا تھا، قائد کی سو سے زاید تقاریر میں پاکستان میں اسلامی نظام اور قرآن و سنت کے بالادست قانون کا ذِکر کیا گیا ہے، لیکن ان رہنمائوں نے قائد کے ان اصولوں اور فرمودات کا ذکر کبھی نہیں کیا۔ جس دو قومی نظریے کے درست ثابت ہونے کی بات کی جارہی ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ ہندوستان ہندوئوں کے لیے اور پاکستان مسلمانوں کے لیے، تو پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قائد اعظم نے سیکولرازم پر عمل کرنے کے لیے پاکستان بنایا تھا، اس سے بڑا الزام تو قائد اعظم پر کوئی نہیں ہوسکتا کہ وہ سیکولر ہندوستان کے ہوتے ہوئے ایک اور سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں پر اس لیے ظلم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، ڈاڑھیاں رکھتے ہیں، اپنی سیاسی جماعتیں رکھتے ہیں اور پاکستان میں مسلمانوں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ یہ کون سا نظریہ ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ یہی دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ پہلے ہندو اور انگریز مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے اب کالے انگریز کرتے ہیں، انگریز کے ذہنی غلام کرتے ہیں، زیادہ ظلم ان مسلمانوں پر ہوتا ہے جو قائد اعظم کے وژن کے مطابق اس ملک میں قرآن و سنت کا قانون نافذ کروانا چاہتے ہیں۔
قائد اعظم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہمارے حکمران کرتے ہیں، قائد کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہتے تھے، ہمارے حکمران اس شہ رگ کو بھارت کے قبضے میں دیکھ کر بھی مطمئن ہیں۔ وزیراعظم نیازی پوچھتے ہیں کہ کیا جنگ چھیڑ دوں، وہ یہ بھی بتادیں کہ جنگ و جارحیت کا جواب کب تک سفارت کاری سے دیا جائے گا اور سفارت کاری کیسی؟ کہاں کب کی گئی؟ اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں، چین سے آخری توقع تھی اس نے بھی کہہ دیا کہ پاکستان اور بھارت تحمل سے کام لیں۔ ظاہری بات ہے پاکستان تو تحمل سے کام لے رہا ہے اور بھارت تشدد سے۔ قائد کا وژن پسپائی ہرگز نہ تھا۔ جس طرح بھارتی حکومت کے اقدامات سے دوقومی نظریے کے درست ہونے کا سب کو 25 دسمبر کے دن ادراک یا الہام ہوتا ہے، یہ ادراک اور الہام دو قومی نظریے کے پورے ملک پر نفاذ میں کب تبدیل ہوگا۔ قائد کا نظریہ صرف یہی نہیں تھا کہ اس کی ہر سال یاد منالی جائے، تکرار کرکے طاق نسیاں پر رکھ دیا جائے۔ اگر پاکستان کی 72 برس کی تاریخ دیکھیں تو 72 برس میں ایک دن کے لیے بھی دو قومی نظریے کو پاکستان میں پنپنے نہیں دیا گیا۔ جو لوگ ملک پر حکمران ہیں ان کا بس چلے تو اس نظریے کا ذکر 14 اگست، 25 دسمبر اور 23 مارچ کو بھی نہ ہونے دیں۔ یہ بھی بار بار قوم کو اس کے قیام کے اسباب سے جوڑ دیتے ہیں۔ ایک بار پھر یاد آگیا بابائے قوم کا شکریہ ادا کیا جارہا ہے لیکن اب باری ہے قوم کی کہ وہ ایسا کام کرے جس کے نتیجے میں بابائے قوم کہہ اُٹھیں کہ شکریہ پاکستانی قوم تم نے میرے ملک کو میرے وژن، نظریے اور افکار کے مطابق بنادیا۔ توکون ہے سے جو بابائے قوم کو شکریہ کا موقع دے۔