دلی اُداس ہے

254

دہلی یوں تو بھارت کا دارالحکومت ہے مگر پاکستان سے جانے والے کسی شخص کے لیے دہلی کچھ اپنا اپنا سا ہوتا ہے کیونکہ برصغیر پاک وہند کی تاریخ، تصوف، شعر وادب اور نصاب کی کتابوں میں اس شہر کا بار بار یوں تذکرہ ہوتا ہے کہ ایک غائبانہ سی شبیہ ذہن میں بن جاتی ہے۔ لال قلعہ، جامع مسجد، درگاہ نظام دین، قطب مینار مزار ِ غالب اور اس سے متصل غالب لائبریری۔ یہ تو دہلی کی چند ایسی علامتیں اور شناخت ہیںکہ جو مسلم برصغیر کی تاریخ سے جڑی ہیں مگر اس کے علاوہ بھی اس شہر میں باہر سے جانے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ بھارت کے ٹی وی چینل دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی آج اُداس ہی نہیں غصے میں ہے۔ غصہ بھی معمولی نہیں آتش فشانی قسم کا ہے۔ دہلی کے مختلف علاقوں میں مشتعل افراد جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہے پولیس سے مڈ بھیڑ معمول پر ہے۔ یوں تو مودی نے پورے بھارت کے سکون کو دیا سلائی دکھا دی ہے اور دریائی اور تاحد نگاہ جلوسوں کے شعلے بھڑکا دیے ہیں مگر دہلی کا غصہ اور اُبال اپنی مثال آپ ہے۔ پورے بھارت کو تو شہریت کے قانون کا غصہ ہے مگر دہلی کے غصے میں غم بھی گندھ کر رہ گیا ہے اور یوں غم وغصے کی وجہ اس تاریخی شہر کی تاریخی درس گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات کی پولیس کے ہاتھوں دُرگت ہے۔ پولیس جامعہ ملیہ کے طلبہ وطالبات پر جس انداز سے ٹوٹ پڑی اس کی کہانی خود مضروب طلبہ کی زبانی سنیں تو پلکوں پر بے ساختہ نمی تیرنے لگتی ہے۔ جامعہ ملیہ سے چلنے والی احتجاج کی لہریں اب جواہرلعل نہرو یونیورسٹی سے ہوتی ہوئی بھارت کے طول وعرض تک پھیل رہی ہیں۔ جامعہ ملیہ مذہبی تعلیم کا ادارہ نہیں جیسا کہ اس کے نام کو سن کر مغالطہ ہوتا ہے۔ یہ علی گڑھ کی طرح مسلمانوں کی جدید درس گاہ ہے جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پرویزمشرف اور من موہن سنگھ کے شروع کیے گئے پیس پروسیس میں ڈاکٹر رادھا کمار نامی ایک خاتون اُبھرکر سامنے آئیں جو بعد میں کشمیر کے لیے بھی تین رکنی سہولت کار گروپ میں شامل رہیں۔ یہ ہندو خاتون جامعہ ملیہ ہی سے وابستہ تھیں۔
جس دلی کو آج خون میں لت پت اور چراغِ زیر پا دیکھا جا رہا ہے میں نے 2003میں اس دلی کو واقعی چمکتا دمکتا اور خوش باش دیکھا ہے۔ یہ کارگل جنگ اور پارلیمنٹ حملے کے نتیجے میں پھیلنے والی کشیدگی کے بعد بھارت جانے والے چند پہلے وفود میں سے ایک تھا۔ جو بھارت کے نوبل انعام یافتہ معروف سماجی راہنما کیلاش ستیارتھی کی دعوت پر بھارت کے تین ہفتے کے دورے پر گیا تھا جس کی قیادت اس وقت کی ق لیگ کی رکن اسمبلی فردوس عاشق اعوان کر رہی تھیں۔ میں نے دہلی کی شاموں کو روشنیوں میں نہاتے دیکھا کرناٹ پیلس سے چاندنی چوک تک اس کے بازاروں کو پررونق اور مصروف دیکھا ہے۔ دلی کے لال قلعے کو خاموش اور ناکوں وچوکیوں کے پیچھے دور سے متجسس نگاہوں سے دیکھنے کے بعد ایک یادگار تصویر کی شکل دے کر البم میں محفوظ کیا ہے۔ آج کا تو پتا نہیں اس وقت لال قلعہ فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دہلی کی جامعہ مسجد میں کبوتروں کے غولوں کے پرے ایک عظیم تاریخی منظر کو چشم تصور میں دیکھا ہے۔ جامع مسجد کے قریب مسلمانوں کے روایتی کھانوں کے واحد مرکز کریم ہوٹل کے کھانوں سے لطف لیا ہے۔ نظام الدین اولیا کی وسیع وعریض درگاہ اور اس کے ایک کونے میں ان کے عاشق زار توتی ٔ ہند کہلانے والے امیر خسرو کے مزار پر محفل سماع کو پورے عروج اور عالم وجد میں دیکھا ہے۔ درگاہ نظام الدین اور غالب لائبریری کے ساتھ اردو کے شہرہ آفاق شاعر مرز اغالب کی آخری آرام گاہ کو زائرین کے نظر انداز کیے جانے کے باعث کچھ شکوہ کناں سا دیکھا ہے مگر اس کے باجود کچھ ملنگ چچا غالب کے نام پر ’’نذرانہ دیتے جائو بھائی‘‘ کی سدا بلند کرکے دائو لگانے سے باز نہیں آتے جس کے جواب میں فقط یہ کہہ کر آگے گزر گیا تھا ’’ہم تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘۔
آج بھی دہلی کے لائنز کلب کی رنگا رنگ تقریب بھی لوح حافظہ میں محفوظ ہے جب ہمارے وفد کو پھولوں سے لاد دیا گیا تھا۔ اس شہر کے ایک کونے ابراہیم پور میں گاندھی آشرم آج بھی مہاتما گاندھی کی یاد دلاتا ہے۔ اس کی نگران ایک سادہ مزاج خاتون آنجہانی نرمیلا دیشن پانڈے کا آشرم کے شکستہ اور پرانی طرز کے دفتر میں پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات کی بے تاب تمنا کا اظہار آج بھی یاد ہے۔ یہاں میں نے نرمیلا دیش پانڈے سے تفصیلی انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے پورے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ کشمیر کی کنٹرول
لائن پر جلد ہی آمدو رفت ہوگی۔ دوسال بعد ہم کنٹرول لائن پر شروع ہونے والی آمدو رفت کی شکل میں اس حیران کن منظرکو دیکھ رہے تھے۔ چانکیہ پوری سے درگاہ نظام الدین تک اکثر شام کو بلاخوف وخطر جانا اور راستے میں آٹو رکشے والے سے پاک بھارت تعلقات کے مستقبل پر رائے پوچھ کر پورے سفر میں اس کی تقریر سننا ایک مزیدار تجربہ ہوتا تھا پوری تقریر کا خلاصہ یہ ہوتا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام میںکوئی دشمنی نہیں صرف سیاست دانوں نے دونوں کے درمیان دشمنی کا ماحول پیدا کیا ہے۔ انڈیا گیٹ پر ان دنوں صرف تصویریں بنوانے والے سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی اب جو وڈیو کلپس دیکھنے کو مل رہی ہیں بتا رہی ہیں کہ اب دہلی کی یہ شناخت ہر بے تاب ہجوم کی منزل ہوتا ہے۔ دہلی کی اسمبلی کے باہر بہت سے مجسموں میں ایک خصوصی شناخت کا حامل ہوتا ہے یہ امبیڈ کر کا مجسمہ ہے۔ بھارتی آئین کے بانی دلت لیڈر ڈاکٹر امبیڈکر بھارت میں خصوصی قدر ومنزلت کے حامل رہے ہیں اور ہم نے جمہوریت کے احترام میں امبیڈ کر کے مجسمے کے ساتھ تصویریں بنوائی تھیں۔ اب سنا ہے کہ امبیڈ کر کا مجسمہ خون کے آنسو بہا رہا ہے کیونکہ بھارت کے دستور کو سیکولر شناخت دینے والے امبیڈ کر پر سردار پٹیل کی سوچ غالب آرہی ہے جس کا محور یہ تھا کہ بھارت ایک ہندو راشٹریہ ہے اور اس کا دستور بھی اسی سوچ کا عکاس ہونا چاہیے۔ یہیں پوری شان سے ایستادہ ایک اور مجسمہ مولانا ابولالکلام آزاد کا بھی ہے۔ مولانا آزاد مسلم لیگ کے مقابل متحدہ ہندوستان کی سیاست میں مسلمانوں کی علامت ہیں۔ سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے قائد کے طور پر مولانا آزاد جمہوریہ ہند میں سیکولرازم وجود کی ضمانت ہیں۔ وقت کے ساتھ امبیڈ کر کا آئین اور مولانا آزادکا سیکولر ازم دونوں کھوکھلے مجسمے ہی رہ گئے مگر اب یہ خالی مجسمے بھی انتہا پسند سوچ کو گوارا نہیں اور وہ انہیں پرانی مورتیوں کی طرح گنگا کی موجوں کی نذر کرنے پر مُصر ہیں۔
سیاسیات کے طالب علم کے طور پر میں نے یہ محسوس بھی کیا تھا اور اسے اپنے سفرنامے ’’تاج محل کی چھائوں میں‘‘ میں تحریر بھی کیا تھا کہ مسلم سیاست بھارت میں تیزی سے کمزور پڑچکی ہے اور مسلمانوں کی اس نسل نے ذہنی طور پر شکست قبول کر لی ہے۔ مسلمان قیادت اور حلقوں میں ایک احساس شکست صاف جھلکتا تھا اسی لیے وہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کی کھلی مخالفت کر رہے تھے اور اگر مخالفت سے گریز کرتے تو کشمیر میں بدترین سانحات پر بھی بے حسی اور لاتعلقی پر مبنی خاموشی اختیار کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کشمیر کا الگ ہوجانا ان کے لیے ایک اور پاکستان بن جانے کی صورت مصائب اور آلام کا باعث بنے گا۔ یوں وہ کشمیر کو ایک ہیومن شیلڈ کی نظر سے دیکھتے تھے کہ بھارت کے وجود میں ایک مسلمان اکثریتی ریاست ان کے قومی وجود کو اعتبار عطا کر سکتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے کشمیر کی رہی سہی علامتی شناخت بھی مسل کر رکھ دی۔ بھارت کی پہلے سے سہمی ہوئی مسلمان آبادی خاموش بھی رہی اور مزید خوف زدہ ہو کر رہ گئی۔ شاید اسے یہ موہوم امید ہے کہ کشمیر میں طاقت اور مزاحمت کی آنکھ مچولی بانہال کے پہاڑوں سے آگے نہیں بڑھے گی مگر این آر سی اور سی اے اے جیسے متعصبانہ قوانین نے اس امید کو توڑ دیا اور یوں اب بھارت کا ہر شہر احتجاج اور مزاحمت کی شکل میں ’’کشمیر‘‘ نہیں بنا بلکہ نریندر مودی طاقت کا بے محابا استعمال کر کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بند کرکے پکڑ دھکڑ اور تشدد کے ذریعے انہیں مثلِ کشمیر بنا رہا ہے۔ دہلی کے نوجوان بچے اب سارے خوف جھٹک کر برسر میدان ہیں۔ خوف وخدشات اور سکوت اور مصلحت کی باتیںقصہ ٔ پارینہ قرار پائی ہیں اور بھارتی مسلمانوں کی نسل نے قیام پاکستان کے باعث منصوبہ بندی سے پیدا کیا جانے والا احساس جرم اور احساس کمتری جھٹک کر دور پھینک دیا ہے کیونکہ بات ان کے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی ہے اور اس مستقبل کا تعین آج کی نسل کررہی ہے۔ آج کے بھارت کے حالات کی عکاسی معروف ادکارہ شبانہ اعظمی کے خاوند شاعر اور دانشور جاوید اختر کی یہ نظم کر رہی ہے جس سے مزاحمت کی نوعیت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لکھ
بھارت کے معروف ادکار جاوید جعفری کے جواہرلعل یونیورسٹی میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں پڑھے گئے یہ اشعار بھی حالات کی بہترین عکاسی کر رہے ہیں۔
بڑی رونق تھی اس گھر میں یہ گھر ایسا نہیں تھا
گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا