ایسا بھی کوئی ہے عمران اچھا کہے جسے

293

صد شکر! حکومت سرخرو ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال گرفتار ہوئے۔ وہ بھی چور نکلے۔ شریف فیملی کے متعلق عمران خان کہا کرتے تھے ’’سارا کا سارا ٹبر چور ہے‘‘۔ تو ہمیں یقین نہیں آتا تھا۔ بفضل نیب اب یقین آگیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو چور سمجھنے کی بات آتی تو احسن اقبال ٹنگڑی مار دیتے تھے۔ ان کی گرفتاری سے اس بات پر بھی اعتبار آگیا۔ ن لیگ بھی پوری کی پوری چور ہے۔ نیب کے دفتر کا ہم واحد استعمال یہ سمجھتے تھے کہ ملاقاتی سے پیار سے گلے ملا جائے۔ ٹک ٹاک گرل نے ثابت کردیا کہ حکومتی ایوانوں میں بھی یہی ہورہا ہے۔ وزرا کا بھی یہی کام ہے۔ گنگا خود چل کر آئے تو کون ہے جو ہاتھ دھونے سے محروم رہنا پسند کرے۔ احسن اقبال کے بارے میں ہمارا یہی گمان تھا کہ وہ کرپٹ نہیں ہوسکتے۔ گنگا کیا بدعنوانی کو دعوت دیتے سات سمندر بھی سامنے آجائیں تو وہ نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ گرفتار نہ ہوتے تو ہم ابھی تک یہی سوچتے رہتے۔ حد ہوگئی کس غضب کے اداکار ہیں۔
ہم حیران ہیں پاکستان کی سیاست میں اگر کرپشن، کرپٹ اور مافیا کے الفاظ رائج نہ ہوتے تو عمران خان کی تقاریر اور سیاست کن ساحلوں پر چہل قدمی کرتیں، دوڑیں لگاتیں۔ ایسا بھی کوئی ہے عمران اچھا کہے جسے۔ بات یہ ہے کہ عمران خان، فیصل واوڈا، شہر یار آفریدی، شیخ رشید، مراد سعید اور دیگر نفوس قدسیہ جو حکومت چلارہے ہیں وہ ذرہ برابر کرپشن برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اچھے برے، چھوٹے بڑے کی قید نہیں جو اپوزیشن خاص کر ن لیگ میں ہے اس بات کا حق دار ہے کہ نیب اس کی فکر کرے۔ دنیا ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی۔ یہاں چیئرمین نیب جیسے نیک طینت لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو برسر پیکار ہیں کہ ن لیگ کا جو بھی لیڈر اگر وہ وفات نہ پاچکا ہو تو اس کی خدمت کرنا نیب کی ذمے داری ہے۔ احسن اقبال خلق خدا کو دھوکا دینے کے لیے بنی گالہ میں کہیں دور رہتے ہیں۔ جواز یہ پیش کرتے شہر کے پررونق علاقوں میں مکان کا کرایہ وہ افورڈ نہیں کرسکتے۔ یہ حسن عقیدت چیئرمین نیب کی بدولت اختتام کو پہنچی۔ جنہوں نے انکشاف کیا کہ ’’احسن اقبال نے نارووال اسپورٹس منصوبے کی لاگت کو غیرقانونی طور پر بڑھایا ہے۔ ساڑھے تین کروڑ کے منصوبے دس کروڑ تک بڑھائے جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا‘‘۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی اس بدعت فاخرہ میں احسن اقبال بھی شامل ہیں! افسوس در افسوس! احسن نے اچھا نہیں کیا۔
سیاست اور ایوان اقتدار کی فضائوں میں خراب ہونے اور دوسروں کو خراب وخوار کرنے کی عظیم صلاحیتیں پائی جاتی ہیں لیکن احسن اقبال کو دیکھیں تو کچھ آس بندھتی تھی کہ سیاست میں کرپشن اور گناہ کی ملاوٹ کے بغیر بھی عمر بتائی جاسکتی۔ احسن اقبال ن لیگ کا سوفٹ امیج ہیں۔ وہ لوگ جو شہباز شریف کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور بہر صورت فوج سے روابط خوشگوار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں احسن اقبال بھی ان میں شامل ہیں لیکن یہ بھی احسن اقبال کا دھوکا تھا۔ عدالت میں پیش ہوئے تو ڈپریشن کے عالم میں وہ فوج کے متعلق اپنے اصل خیالات نہ چھپاسکے۔ انہوں نے کہا ’’مائی لارڈ نیب سے پوچھا جائے کہ آخر سیاست دانوں ہی کو کیوں گرفتار کیا جاتا ہے۔ کرتار پور راہداری منصوبے پر کیوں پوچھ گچھ نہیں ہورہی کہ اس منصوبے کی قواعد وضوابط کے تحت منظوری لی گئی؟ کیا CDWP سے منظوری لی گئی؟ کیا پیپرا رولز pci پر عمل کیا گیا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا جناب والا یہ وہاں نہیں پوچھیں گے اس لیے کہ کرتارراہداری کے پیچھے چھڑی ہے۔ وہاں تک جانے سے ان کے پر جلتے ہیں۔ نیب صرف ان منصوبوں کی چھان بین کرتی ہے جو عوامی طاقت سے بنائے جاتے ہیں۔ اگر یہ چھڑی والے
منصوبے ہوں تو نیب ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھے‘‘۔ اف! فوج جیسے مقدس ادارے کے بارے میں یہ لن ترانی! کرتار پور راہداری جیسے منصوبے کو چھڑی سے تعبیر کرنا۔ حد ہوگئی غداری کی۔ قوم چیئرمین نیب کی مشکور ہے کہ انہوں نے ایک غدار وطن کو پابند سلاسل کیا۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ احسن اقبال کو بھی رانا ثنا اللہ کی طرح اس کوٹھڑی میں رکھا جائے جس میں پھانسی کے مجرموں کو بند رکھا جاتا ہے۔
حکومت کا ایک نادر کارنامہ معمار پاکستان ملک ریاض کے برطانیہ سے آمدہ پیسوں کو عدالت عظمیٰ کے جرمانے کے کھاتے میں ڈالنا اور کابینہ کی میٹنگ میں خفیہ رکھنا ہے۔ کرپشن کے انسداد میں عمران خان کا یہ وہ تاریخی اقدام ہے جس پر آسمان بھی رشک سے جھک کر عمران خان کو دیکھتا ہوگا۔ ویسے آسمان احسن اقبال کی گرفتاری پر بھی تمام چاند ستاروں سمیت عمران خان کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ احسن اقبال کی گرفتاری کی وجہ چیف الیکشن کمشنر بابر یعقوب کی تعیناتی کا معاملہ ہے۔ مسلم لیگ ن نے پچھلے دنوں احسن اقبال کے ذریعے عمران خان کے سلیکٹرز کو باور کرادیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے بابر یعقوب کی تعیناتی انہیں منظور نہیں۔ 2018 کے الیکشن میں بابر یعقوب کی خدمات کے عمران خان اور مقتدر حلقے معترف ہی نہیں بلکہ تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز دینے کا اراد ہ رکھتے ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی انہیں نشان حیدر دینا چاہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو خیر لڑتے بھڑتے، بابر یعقوب میں لمبے لمبے کیڑے نکالنے کے بعد حالات سے صلح کرلی، (اس لیے پوری لیڈر شپ با ہر ہے) لیکن مسلم لیگ ن تمام تر دبائو کے باوجود اگلے الیکشن میں بابر یعقوب کے معاملے میں صلح کرنے پرتیار نہیں۔ جس کی سزا احسن اقبال کو بھگتنا ہوگی۔
چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ جمہوری نظام کا حسن ہے۔ جمہوریت کے ہبڑ دھبڑ میں صرف عوام کی رائے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے عوام امت مسلمہ کا حصہ ہیں جن کے ناتواں کندھوں پر پہلے ہی بھاری بوجھ ہے۔ بابر یعقوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس بوجھ کو شیئر کرنا جانتے ہیں۔ پاکستان میں ہر کوئی جلدی میں ہے۔ ایسے میں لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ اپنے مستقبل کے امیدواروں کے انتخاب میں درست فیصلہ کر سکیں۔ بابر یعقوب غلط امیدواروں (مثلاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دینی جماعتوں کے اراکین) کے انتخاب سے ملک وقوم کو بربادی سے بچانا جانتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اتنی تعلیم یافتہ اور بصیرت کی حامل نہیں ہے کہ اپنا اچھا برا سمجھ سکے۔ آئندہ الیکشن میں پھر تحریک انصاف کو کامیاب کر سکے۔ اس کے لیے بابر یعقوب جیسے ذمے دار شخص کا چیف الیکشن کمیشن ہونا ضروری ہے۔
اس نظام میں ریاست کی مرضی ہے وہ جسے چا ہے حلال کردے جسے چاہے حرام۔ اس نظام کے تحت اسلامی سزائوں کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔ سود کو حرام قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کن لوگوں کو اسمبلیوں میں جانا ہے اسے عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تو مقتدر قوتوں کی تقدیس پر حرف آسکتا ہے۔ سودکا مسئلہ، شادی شدہ زانی کو رجم کی سزا دینا، مسلمانوں کے قتل میں کافروں کا ساتھ دینا، بے حیائی اور الحاد پھیلانے والے میڈیا کو تحفظ دینا، سرمایہ دارانہ سودی نظام کی حفاظت کے لیے جنگ کو جائز بلکہ عبادت سمجھنا، شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کو سزائیں دینا، لا پتا کرنا۔ ان امور کا فیصلہ اللہ پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ان امور کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے اور پارلیمنٹ کے اراکین کے انتخاب کا فیصلہ عوام پر نہیں چھوڑا جاسکتا ان کے انتخاب کا فیصلہ مقتدر قوتوں اور ان کی مرضی کے چیف الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔ آج تحریک انصاف کی حکومت ہے اس کا استحقاق ہے کہ چیف الیکشن کمیشن اس کی مرضی کا ہو، کل مسلم لیگ ن کی حکومت ہوگی تو یہ اس کا حق ہوگا کہ چیف الیکشن کمیشن اس کی مرضی کا ہو۔ یہی حق پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ کیوں۔۔ کیوں۔۔ کیوں۔۔ نہ پو چھیے۔ ہر بات کہی نہیں جاتی سمجھی بھی جاتی ہے۔ یہ اس نظام کا حسن ہے۔ کہیے آفرین آفرین۔