جاوید احمد خان
کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے تنقیدی مضامین شائع ہو رہے ہیں کہ عمران خان کو اس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ملائیشیا اور ترکی وہ دو ممالک ہیں جنہوں نے کشمیر کے مسئلے بھرپور آواز بلند کی تھی اور اس کے نتیجے میں ہندوستان سے ان کے تعلقات میں بھی دراڑ آیا اس کی آپس کی تجارت بھی متاثر ہوئی انہوں نے اس کی پروا کیے بغیر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی معرکۃالآرا تقریر کے بعد تینوں سربراہوں کی ایک ملاقات ہوئی جس میں مسلم امہ کے لیے ایک ٹی وی چینل کی ضرورت کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ ہی مسلم ممالک کی ایک موثر اجتماعیت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ و بچار کیا گیا اور اسی حوالے سے ملائیشیا نے اپنے ملک میں مسلم ممالک کی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) عدم فعالیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر قیامت گزر گئی برما کی حکومت ان کی محافظ بننے کے بجائے ان کی قاتل بن گئی برما کی فوجوں نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی اذیت ناک طریقے سے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں بالخصوص عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا لاکھوں مسلمان برما سے بنگلا دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی بے حسی کی چادر اوڑھے پڑی سوتی رہی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن مسلم امہ کا یہ ادارہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ پھر رواں سال کے پانچ اگست بھارت نے آئینی ترمیم کرکے کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو ختم کر کے اس کو بھارت کا حصہ بنا لیا اور جب سے مقبوضہ کشمیر میں سیکڑوں نوجوانوں کو ہلاک کردیا ڈیڑھ سو سے زیادہ دن گزر گئے وہیں اب بھی کرفیو نافذ ہے لیکن او آئی سی کروٹ بدلنے کے لیے بھی تیار نہیں، عملاً یہ ایک مردہ گھوڑا بن چکا ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو او آئی سی کی غیر فعالیت ہی کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد کا سبب بن گئی۔
سعودی عرب جو ایک طرح سے او آئی سی کا کسٹوڈین ہے اسے کوالالمپور کانفرنس پر شدید تحفظات تھے وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ او آئی سی کے مقابلے پر ایک متوازی تنظیم کے لیے راستے ہموار کیے جارہے ہیں۔ تین روزہ کانفرنس اس پہلو سے کامیاب ہوئی کہ اس میں چالیس سے زائد ممالک کے نمائندے شریک تھے اس کے علاوہ دنیا بھر سے مسلم دانشوروں کو بھی بلایا گیا تھا جنہوں نے اس وقت مسلم امہ کے مسائل کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ملائیشیا اور ترکی کے سربراہوں نے اس حوالے سے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے پیشگی مشاورت کرلی تھی اس وقت انہیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا سعودی عرب اتنا سخت اسٹینڈ لے گا کہ عمران خان کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، انہوں نے اپنی جگہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر وہ بھی نہ جا سکے۔ اب جب کہ یہ بات سامنے آچکی کہ سعودی عرب نے پاکستان کو یہ دھمکی دی کہ اگر کانفرنس میں شرکت کی تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں پڑی ہوئی رقم واپس لے لی جائے گی جو ملک کی معیشت پر فوری منفی اثرات مرتب کرے گی اور دوسرے یہ کہ جو چالیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں انہیں واپس بھیج دیا جائے گا اور ان کی جگہ بنگلا دیش اور بھارت سے افراد کو لے آیا جائے گا اس فیصلے سے پاکستانی معیشت پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ممکن ہو کہ سعودی عرب کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے ایسا نہ کہا ہو لیکن کسی بالواسطہ ذریعے سے اس تاثر کو پاکستانی حکمرانوں تک پہنچا دیا گیا ہو، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نازک موقع پر پاکستان کو کیا کرنا چاہیے تھا۔ ایک تو وہی فیصلہ جو عمران خان نے کیا کہ ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں کانفرنس میں نہ جانے کا اعلان کردیا اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو ملائیشیا کانفرنس میں شرکت کر لینا چاہیے تھا اور ہمیں ملائیشیا اور ترکی کو ناراض نہیں کرنا چاہیے تھا کہ انہوں نے اس موقع پر کشمیر اشو پر پاکستان کا ساتھ دیا جب پاکستان تنہا تھا۔
فرض کرلیں کہ پاکستان سعودی عرب کو ناراض کر کے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرلیتا اور سعودی عرب اپنی پہلی دھمکی کو روبہ عمل لے آتا تو ہماری معاشی صورتحال جس ابتری کا شکار ہوتی اس کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ایک مریض ماسک پہنے آکسیجن لے رہا ہو جس سے اسے سانس لینے میں آسانی ہورہی ہو اور ہم کہیںکہ نہیں اپنے ان دو دوستوں کی خاطر جنہوں نے ہمارے موقف کی حمایت کی تھی ہم منہ پر ماسک ہٹا دیں چاہے ہماری سانس ہی اکھڑجائے۔ چار پانچ برس قبل کی بات ہے جب نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے اس وقت سعودی عرب اور یمن کی جنگ برپا تھی سعودی عرب کی خواہش تھی کہ پاکستان فوج ہمارے ساتھ یمن کے خلاف جنگ میں حصہ لے اس مسئلے کو نواز شریف صاحب قومی اسمبلی میں لے گئے جہاں ارکان اسمبلی کی بہت بڑی اکثریت نے یہ کہا کہ ہمیں کسی مسلم ملک کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی فوج کو نہیں بھیجنا چاہیے۔ اس فیصلے کی روشنی میں پاکستانی فوج کو سعودی عرب کی خواہش پر یمن سے لڑنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، اس فیصلے سے سعودی عرب اور یو اے ای بہت ناراض ہوئے، ہم نے ان کی ناراضی کے باوجود اپنے قومی مفاد میں یہ فیصلہ کیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا فیصلہ درست تھا ہمارے جو صحافی اور دانشور اس پر تنقید کررہے ہیں تو وہ تو اس وقت بھی تنقید کرتے جب عمران خان ملائیشیا چلے جاتے اور کہہ رہے ہوتے کہ ہمیں سعودی عرب کو ناراض نہیں کرنا چاہیے تھا یہ ہمارا دیرینہ دوست ہے اور ہر اہم موقعوں پر پاکستان کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا ہے۔ ملائیشیا اور ترکی نے کشمیر پر جو موقف اپنایا ہے وہ ایک اصولی موقف ہے وہ اس سے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے انہیں پاکستان کی مجبوریوں کا بھی احساس ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان نے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر عدم شرکت کا فیصلہ کیا ہے ورنہ اس کا دل تو ہمارے ساتھ ہی دھڑک رہا ہے۔ ابھی دو دن قبل سعودی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا کچھ اہم مسائل پر بات چیت ہوئی ہے یقینا کشمیر کے مسئلے پر بھی سعودی عرب اپنی پالیسیوں پر دوبارہ غور کرسکتا ہے اسی طرح بھارت نے اپنے یہاں شہریت کے حوالے سے جو بل پاس کیا ہے جو سراسر مسلمانوں کے خلاف ہے اس مسئلے پر بھی سعودی عرب اپنے اصولی موقف کا اظہار کرے گا۔