بلدیہ عظمیٰ: اربوں کی روپے کی اراضی ٹھکانے لگانے کیلیے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو اختیار

64

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود اربوں روپے مالیت کی اراضی ٹھکانے لگانے کے لیے نجی کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو اختیار دے دیا۔ پرانی سبزی منڈی اور پیر کالونی کے قریب 18 ہزار
707 مربع گز کا پلاٹ اسماعیلیہ گارڈن کوآپریٹو سوسائٹی کو کسی دوسرے کو فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق کسی بھی این جی او کو دی جانے والی اراضی کو فروخت کرنے کا اختیار کے ایم سی کے پاس ہے نہ وہ کرسکتی ہے، میئر وسیم اختر تو پہلے ہی سے اختیارات نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم ’’جسارت‘‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے قائم مقام ڈائریکٹر لینڈ شیخ کمال ان دنوں شہر کے مختلف علاقوں کے قیمتی پلاٹس کو قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خلاف قانون دوسروں کے حوالے کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذکورہ ڈائریکٹر لینڈ نے 2 روز قبل ختم ہونے والے سال کے ماہ نومبر میں اسماعیلیہ گارڈن کو آپریٹو ہاؤسنگ لمیٹڈ کو اپنے دستخط سے ٹرانس لیاری کوارٹر نزد پرانی سبزی منڈی یونیورسٹی روڈ کا 18 ہزار 707 گز 72 فٹ مربع اسکوائر یارڈ کا پلاٹ نمبر 18 شیٹ نمبر کے / 28 سی ٹرانس لیاری کوارٹرز کسی بھی شخص کو فروخت کرنے کے لیے این او سی جاری کردی۔ اس این او سی کو جو ڈائریکٹر لینڈ کے دستخط سے دی گئی ہے ، سب رجسٹرار ایک جمشید ٹاؤن میں 20 نومبر 2019 کو جمع کرائی جاچکی ہے۔ اس این او سی کے اجراء کے لیٹر میں یہ بات واضح کردی گئی کہ پلاٹ کا موجودہ اونر میسرز اسماعیلیہ گارڈن کوآپریٹو لمیٹڈ اگر کسی کو بھی فروخت کرتا ہے تو، کے ایم سی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مذکورہ اراضی کم و بیش 30 سال قبل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی کو الاٹ کی گئی تھی۔ ایک سابق ڈائریکٹر لینڈ اور بلدیاتی امور کے ماہر ایڈووکیٹ نے بتایا ہے کہ کسی بھی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو پلاٹ صرف ان کے ارکان کو رہائش وغیرہ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ سوسائٹی اسے مقرر کردہ وقت میں استعمال نہ کرسکی تو متعلقہ ادارے ایسے پلاٹس یا زمین کو واپس اپنے قبضے میں لینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جبکہ کے ایم سی، کے ڈی اے یا سندھ گورنمنٹ ایسے پلاٹوں یا زمین کی فروخت کا اختیار کسی صورت میں کسی کو نہیں دیتے کیونکہ زمین کی مالک ایجنسی متعلقہ سرکاری ادارہ ہوا کرتی ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت اس طرح کے تمام اہم امور کو نمٹانے کا اختیار صرف متعلقہ میونسپل یا میڑوپولیٹن کمشنر کے پاس ہے اور وہی ان امور پر جواب دہ بھی ہے۔ ٹرانس لیاری کوارٹرز کے مذکورہ پلاٹ کی فروخت کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کے اجراء کے حوالے سے جب میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موبائل کال ریسیو نہیں کی تاہم ڈائریکٹر لینڈ شیخ کمال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’کے ایم سی کو مذکورہ این او سی دینے کا اختیار ہے‘‘۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر لینڈ جھوٹ بول رہیں ہیں چونکہ شیخ کمال بطور قائم مقام ڈائریکٹر لینڈ ہیں اس لیے وہ تو اپنے دستخط سے کوئی بھی اہم امور انجام نہیں دے سکتے۔ خیال رہے کہ ٹرانس لیاری کوارٹرز کے قرب و جوار فی مربع گز پلاٹ کی قیمت کم و بیش ایک لاکھ روپے فی گز ہے۔