قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ کی زمین پر جو خرابیاں پیدا ہوں گی اور پھیل جائیں گی، احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں 23دسمبر کے کالم میں ہم نے اُن کو بیان کیا ہے، مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں، اُن میں بعض امور کا تکرار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی نئی بات بھی آجاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے، لہٰذا نئے شرکاء کے لیے درجہ بدرجہ تمام باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تئیس سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرم ؐ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا، سطورِ ذیل میں ہم چند نئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:
(۱) سابق امتوں کی پیروی: آپ ؐنے فرمایا: ’’تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے، ہم نے عرض کی: یا رسول اللہؐ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپ ؐنے فرمایا: اور کون، (بخاری)‘‘۔
(۲) وقت سمٹ جائے گا: سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زمانہ قریب ہوجائے گا، سال ایک مہینے کے برابر ہوجائے گا، مہینہ ایک ہفتے کے برابر ہوجائے گا، ہفتہ ایک دن کے برابر ہوجائے گا، دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گا اور ساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی، (سنن ترمذی)‘‘۔ وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور برسوں میں طے ہوتے تھے، اب گھنٹوں میں طے ہورہے ہیں، وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے، اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تو اگلے دن کی فجر کی نماز نیویارک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ کراچی سے نیویارک کا فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے، لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔
(۳) اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہ ؐ نے فرمایا (۱): ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زُہد روایت بن جائے گا اور ورع وتقویٰ تصنُّع اور بناوٹ، (حلیۃ الاولیاء)‘‘۔ (۲) ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائیں گے، (سنن ترمذی)‘‘۔
(۴) اچانک اموات: سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنالیا جائے گا اور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے، (المعجم الاوسط)‘‘۔آج کل بوجوہ ہارٹ اٹیک کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہورہے ہیں، اُس کی وجہ چکنائی سے معمور غذائیں اور مختلف طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائیں متضاد اثرات کی حامل ہوجاتی ہیں، یعنی اگر ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہیں تو دوسری بیماری کا سبب بن جاتی ہیں۔
(۵) ہم جنس پرستی: طویل حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہوگا، مرد مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے اپنی خواہش پوری کریں گے، زنا کی کثرت ہوگی‘‘۔ اب تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیں ہیں، ایک حدیث میں فرمایا: ’’باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ مغرب میں نکاح کو مشکل بنادیا گیا ہے اور نئے جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیر خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے، بعض اوقات باپ کا نام معلوم نہیں ہوتا۔
(۶) دین پر چلنا دشوار ہوجائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری اور فرضِ کفایہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کے لیے ظاہر کیا گیا، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (آل عمران:110)‘‘۔ پس جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ’’اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا، (المائدہ: 105)‘‘۔ بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی، کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالنا چھوڑو، بس اپنی فکر کرو، جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری قرار دیتا ہے، چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے ابوثعلبہ خُشَنِی سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (مجھے بھی یہ بات کھٹکی تھی) میں نے اس کی بابت رسول اللہ ؐ سے پوچھا:
آپ ؐ نے فرمایا: (نہیں)، بلکہ تم لوگوں کونیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، ہاں! اگر ایک ایسا مشکل دور آجائے کہ کمینوں کی اطاعت اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جانے لگے، دنیا ترجیحِ اول قرار پائے، (قرآن وسنت سے بے نیاز ہوکر) ہر شخص اپنی رائے (کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے اُس) پر اِترانے لگے اور تم متزلزل ہوجائو تو پھر اپنی فکر کرو اور لوگوں کا خیال چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں، پس مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنا اس قدر مشکل ہوجائے جیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا، پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر، آپ ؐ نے (صحابہ سے) فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر، (سنن ابودائود)‘‘۔
(۷) عیسائیوں کا غلبہ: مستورِد القرشی نے سیدنا عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہ ؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہوگی، اُن سے عمرو نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو، انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ؐ سے سنا ہے، سیدنا عمرو نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں، شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں اور مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں، پھر آپ ؐ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں، (مسلم)‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان واعمالِ صالحہ پر ہے، لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچار ہوتی ہیں، آج یہود ونصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔
(۸) بارشوں کا بے مصرف ہونا: سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو، بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے، (مسلم)‘‘۔ اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہاکر لے جاتے ہیں اور بارش کے بعد جس خوش حالی کی توقع کی جاتی ہے، لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
(۹) علمائے حق کا اٹھ جانا: گزشتہ کالم میں بخاری کے حوالے سے قیامت سے پہلے رونما ہونے والے امور میں ایک یہ تھا: ’’علمِ (حق) اٹھا لیا جائے گا‘‘، اس کی مزید تفصیل اس حدیثِ مبارک میں ہے:
’’عبداللہ بن عمرو بن العاص نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے)کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو، بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے، (بخاری)‘‘۔ حکیم بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ؐ سے شر کی بابت پوچھا: آپ ؐ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو، خیر کے بارے میں پوچھو، پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں، (سنن دارمی)‘‘۔ کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں، ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں، سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اگر وہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تو یہی وجہ فساد ہے، آپ ؐ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا:
’’سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیا کہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتا تو اسے اُس کام سے نہ روکتا بلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو یک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا،
پھر آپ ؐ نے المائدہ کی آیات 78 تا 80 تلاوت کرکے فرمایا: ہرگز نہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور تم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کردو گے، (ابودائود)‘‘۔ قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔
قیامت سے پہلے رونما ہونے والے واقعات میں ایک بات تکرار کے ساتھ ملتی ہے کہ عزت وذلت کے معیار بدل جائیں گے، رذیل لوگ سربراہی کے منصب پر فائز ہوں گے، فاسق لوگوں کے ہاتھوں میں زمامِ اقتدار آجائے گی، الغرض اختیار واقتدار اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت وجہِ تکریم بن جائے گی۔ درحقیقت کسی کی تکریم اور احترام کے جذبات انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات کسی کی تکریم حالات کے جبر کے تحت کی جاتی ہے، بندگانِ اغراض جھک جاتے ہیں اور دینی وملّی حمیت سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔