ہر سرکاری ملازم کی مدت بڑھایے

261

وفاقی کابینہ نے فوجی قانون میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔ فوجی قانون میں نئی ترامیم کے ذریعے نہ صرف تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 64 برس ہوجائے گی بلکہ ان کی سربراہی میں تین سالہ مدت کے لیے توسیع بھی کی جاسکے گی ۔ فوج کے موجودہ سربراہ کو حکومت کی جانب سے دوسری مدت کے لیے سربراہ مقرر کرنے پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے 28 نومبر کو حکم جاری کیا تھا کہ یا تو اس اقدام کے لیے ملک کے فوجی قانون میں ضروری ترمیم کی جائے یا پھر نیا فوجی سربراہ مقرر کیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت ریویو پٹیشن میں بھی گئی ہوئی ہے۔ بدھ کو وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلا س بلایا گیا جس کے شرکاء تک اس اجلاس کے ایک نکاتی ایجنڈے سے لاعلم تھے ۔ سرکار کی جانب سے ترامیم کی جو تجاویز پیش کی گئیں ، اس پر کابینہ نے بلا کسی اعتراض کے اپنی مہر ثبت کردی ۔کابینہ کی جانب سے منظور کی جانے والی ترامیم کو قانون بنانے کے لیے اسمبلی میں منظوری کے لیے جمعہ کو پیش کیا جائے گا ۔ چونکہ فوجی قانون میں ترمیم مقدس گائے سے متعلق ہے ، اس لیے اس ضمن میں کسی جانب سے کسی مخالفت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اور توقع ہے کہ جتنی آسانی سے یہ ترامیم کابینہ کے اراکین نے منظور کردی ہیں ، اتنی ہی آسانی سے یہ پارلیمان میں بھی منظور ہوجائیں گی اور فوری طور پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد اسے قانون کا درجہ مل جائے گا ۔معاملہ یہ نہیں ہے کہ کسی کو فوج کے موجودہ سربراہ کی اہلیت سے انکار ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج پوری کی پوری پیشہ ورانہ طور پر مضبوط ہے اور اسے کسی شخصیت کے گرد نہیں گھومنا چاہیے ۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کی تینوں افواج کے سربراہان کی ریٹائرمنٹ کی مدت 64 برس ہونی چاہیے تو یہی مدت افواج کے دیگر افسران کے لیے بھی مقرر ہونی چاہیے بلکہ پورے ملک میں ہر سرکاری افسر کی ریٹائرمنٹ کی مدت یہی ہونی چاہیے ۔ اگر سرکار کے نزدیک بری ، بحری یا فضائی فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہیے تو یہی طریقہ کار دیگر اداروں کے لیے بھی ہونا چاہیے ۔ پوری دنیا میں ریٹائرمنٹ یا نئے سربراہ کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا ہے ، اصولی طور پر اُسی پر عمل کرنا چاہیے ۔ پاکستان سے زیادہ پڑوسی ملک بھارت کے حالات ابتر ہیں ۔ اس وقت بھارت تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑا ہے جس میں اس کی تقسیم کے آثار واضح ہیں ۔ اس کے باوجود بھارت میں فوجی سربراہ کو وقت آنے پر تبدیل کردیا گیا ۔ بھارتی فوج نئے سربراہ کی ماتحتی میں بھی اتنی ہی اہل ہے جتنی سابق سربراہ کے دور میں تھی ۔ اگر یہ اصول اختیار کرلیا جائے کہ متوقع سربراہ ہی کو فوجی سربراہ کا نائب مقرر کیا جائے گا اور فوجی سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی اسے ازخود سربراہ کے عہدے پر ترقی دے دی جائے گی تو اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ارکان پارلیمان اس قانون کوعجلت میں منظور کرنے سے قبل اس مسودہ پر تفصیل سے غور کرلیں تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے بہتر ہوگا ۔ایک عجیب تماشا یہ ہوا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بل کی صرف دو کاپیاں پیش کی گئیں چنانچہ ارکان اسمبلی اس کے مندرجات سے بے خبر رہے۔ اسے خفیہ رکھنے کے باوجود اندراجات سوشل میڈیا پر عام ہو گئے۔ یہ کیسے ہوا، اس کی تحقیق کی جا رہی ہے۔