ایک خبر سامنے آئی کہ میاں نواز شریف کو رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ بس اس کے بعد واٹس ایپ کے گروپس متحرک ہوگئے۔ اچھا فیصلہ ہے بُرا فیصلہ ہے۔ پھر نواز شریف سے لے کر جنرل ضیا تک کے بخیے اُدھیڑے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہمیں افسوس اس امر پر ہوتا ہے کہ جو لوگ سیاسی کارکن ہیں وہ ایسی بحثوں میں گھنٹوں پڑے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ واٹس ایپ پر نواز شریف کو مجرم ثابت کردیتے ہیں کچھ لوگ زرداری کو اور کچھ لوگ سارا زور عمران خان کے خلاف صرف کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ان لوگوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ پورا پورا دن اس کام میں گزر جاتا ہے۔ عام لوگ اور جو کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہ ہوں ان کی خیر ہے لیکن سیاسی جماعت اور ہماری اپنی سیاسی جماعت کے لوگ، طلبہ تنظیم کے لوگ پورا دن واٹس ایپ کی بحثوں میں گزار دیتے ہیں۔ واٹس ایپ کا رجحان یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس ہر موضوع پر کسی نہ کسی بھیجی ہوئی پوسٹ پڑی ہوتی ہے۔ جوں ہی کسی نے اختلافی پوسٹ ڈالی جھٹ بغیر تصدیق بغیر پڑھے پوسٹ آگے بڑھادی، اس چکر میں جو جتنا کم علم ہوتا ہے کم تجربہ کار ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ گمراہ ہوجاتا ہے۔ اگر محض گمراہی کا معاملہ ہوتا تو کبھی نہ کبھی بندہ درست راستے پر آجاتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس غلط علم یا غلط اطلاع کے ساتھ ہمارا سیاسی کارکن میدان میں اُتر جاتا ہے غلط اطلاعات کو درست سمجھتا رہتا ہے۔ پھر جب میدان میں حقائق سے سابقہ پیش آجاتا ہے تو چکرا جاتا ہے اور سب سے آسان کام کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یار اپنی قیادت ہی غلط فیصلے کرتی ہے، بس پھر قیادت کے خلاف واٹس ایپ پر بحثیں شروع ہوجاتی ہیں کچھ لوگ قیادت پر تنقید کرنے والوں پر سخت تبصر کردیتے ہیں اور یوں ناراض کارکنوں کی ٹیم تیار ہونے لگتی ہے۔
ایسے ہی ایک گروپ کا احوال سنیں۔ اس گروپ کا مقصد عوام کی مدد کرنا ہے، اس گروپ پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر بحث ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ جنرل پرویز کے حق میں دلائل بھی دیے گئے۔ کچھ کچھ ہمدردی ہورہی ہوگی جب کہ قاضی حسین احمد، منور حسن اور سراج الحق نے پرویز مشرف کی مخالفت میں پوری طاقت صرف کی۔ ایک گروپ میں جو خالص تنظیمی ہے اس میں تنظیم ہی کے بخیے اُدھیڑے جاتے ہیں۔ ساری توانائی جب واٹس ایپ پر صرف ہوجائے گی تو میدان میں کیا ہوگا۔ ایک فیس بک پیج پر دیکھا کہ بڑے جلسے کی دعوت دی جارہی ہے، اس میں کوئی 72 ہزار لوگوں نے شرکت کا اعلان کر رکھا تھا لیکن جلسے میں 2 ہزار لوگ بھی نہیں پہنچے۔ پھر کیا کریں ان 72 ہزار افراد کی یقین دہانی کا۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ ہمارے فیس بک کی پہنچ کروڑوں تک ہے۔ لیکن پانچ دس کروڑ تک پہنچ کر بھی ایک کروڑ ووٹ نہیں بنتے۔ کروڑ تو بہت ہیں پچاس لاکھ ہی بن جائیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہر ایک کے پاس موبائل ہے، واٹس ایپ ہے اور سوشل میڈیا ہے، یہ سوشل میڈیا ایک ایسا شتر بے مہار ہے کہ کوئی اس کی سواری کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرے کنٹرول میں ہے۔ اس پر سوار ہوتے ہی سوار اس کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔ اگر اس کے عمومی نقصانات کا جائزہ لیں تو سب سے بڑا نقصان وقت کا ضیاع ہے۔ دوسرا بڑا نقصان معاشرے کی اصلاح کرنے والوں کا گمراہ ہوجانا ہے۔ سیاسی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دھرنوں کی بات تو بہت دور کی ہے بنیادی طور پر درس قرآن کی دعوت ہے، ڈیڑھ دو سو افراد کو واٹس ایپ اور موبائل میسج کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے لیکن آتے بارہ پندرہ ہیں۔ پہلے پندرہ روز میں ایک درس ہوتا تھا گھر گھر جا کر دو مرتبہ اطلاع دی جاتی تھی۔ بلامبالغہ ستر سے سو تک حاضری ہوتی تھی۔ گھر چھوٹے پڑ جاتے تھے، براہِ راست بالمشافہ ملاقات اور واٹس ایپ میسج میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر دعوت کی بنیاد، قرآن کے ساتھ یہ معاملہ ہوگا تو کیا جلسہ کیا دھرنا کون ساتھ دینے نکلے گا۔ کے الیکٹرک نے اہل کراچی کے جسم کا خون نچوڑ لیا ہے۔ بجلی دیتے نہیں اور پیسے بٹورے جارہے ہیں، اگر اس کے خلاف بھی احتجاج کے لیے بلایا جائے تو سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگ شرکت پر آمادہ ہوتے ہیں لیکن آخر میں بہت اچھا حال نہیں ہوتا۔
ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے گروپوں پر تکیہ ترک کرنے پر زور دیتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ اپنے گھر سے باہر نکلیں۔ دائیں طرف کے دس گھر اور بائیں طرف کے دس گھر، سامنے کے بیس گھر۔ آپ کا واٹس ایپ اور سوشل میڈیا سے بڑا کام ہوجائے گا، ہر گھر کا دروازہ ہفتے میں ایک دن کھٹکھٹائیں اپنی گفتگو سے دلوں پر دستک دیں، واٹس ایپ کے 100 خوبصورت پیغامات سے زیادہ اثر ہوگا۔ واٹس ایپ کو آپس کے رابطے کے لیے رکھیں، اطلاعات کا تبادلہ کریں لیکن سیاسی کارکن اس پر بھروسا کرکے بیٹھ گئے تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ آنے والے چند ماہ بہت اہم ہیں، دعوت کے اعتبار سے بھی اور انتخابات کے اعتبار سے بھی دعوت پہنچے گی تو ووٹ مانگا جاسکے گا اور بات دلوں میں اُترے گی۔