ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
خلافت راشدہ ان خطوط پر قائم تھی جن کی طرف نبی کریمؐ نے رہنمائی وہدایت کی تھی اسی وجہ سے حقوق انسانی کی حفاظت، رعایا کے ساتھ نیک برتاؤ خلفاء راشدین کا شیوہ تھا۔ انھوں نے اپنی دور حکمرانی میں شورائی طرزکو رواج دیا نیز اسلام کے امن، سلامتی اور عدل کے پیغام کو عام کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔
عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبدالکعبہ تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کا نام عبداللہ تجویز فرمایا۔ ابوبکر کنیت، اور عتیق لقب تھا۔ والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ، والدہ کا نام سلمی، ام الخیر کنیت تھی۔
حضرت ابوبکر اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے ان کی دیانت، راست بازی کا شہرہ تھا، اہل مکہ ان کو حسن اخلاق کی بنا پر نہایت معزز محترم سمجھتے تھے، حتی کہ دور جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے یہاں جمع ہوتا تھا۔ اگر کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوجاتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ آپ کو بچپن ہی سے محمدؐ سے لگاؤ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ آپؓ کو اکثر تجارتی اسفار میں محمدؐ کے ہمراہ جانے کا شرف حاصل ہوا۔ ابوقحافہ فتح مکہ تک نہایت مضبوطی کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہؐ مسجد حرام میں تشریف فرما تھے تو اپنے فرزند سیدنا ابوبکرؓ کے ہمراہ دربار رسالت میں حاضر خدمت ہوئے۔ نبی اکرمؐ نے ان کے ضعف کی بنا پر فرمایا کہ انھیں کیوں تکلیف دی میں خود ہی ان کے پاس پہنچ جاتا۔ اس کے بعد آپؐ نے شفقت ومحبت کے ساتھ ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور حلقۂ اسلام میں داخل فرمایا۔ آپؓ کی والدہ ام الخیر سلمیٰ بنت صخر کو ابتدا ہی میں اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
غیر مسلموں سے مشفقانہ برتاؤ
سیدنا ابوبکرؓ دو سال تین ماہ دس دن مسند خلافت پر متمکن رہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپؓ نے اپنے دور حکمرانی میں تمام شہریوں سے انتہائی عادلانہ برتاؤ کیا۔ ان کے تمام حقوق کی حفاظت کی، آپؓ کے زمانے میں جس قدر شورشیں برپا ہوئیں آپ نے انھیں اپنی سیاسی حکمت عملی سے فرو کیا اور اسلامی حکومت کا دائرہ کافی حد تک وسیع کیا۔ آپ کو کئی طرح کے فتنوں سے نبرد آزما ہونا پڑا وہ داخلی فتنے تھے اور خارجی فتنے بھی تھے۔ الغرض آپ دنیائے انسانیت کے لیے ایک مثالی حکمراں کی حیثیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ جب خلیفہ منتخب ہوگئے، آپ نے منبر پر بیٹھ کر جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ رعایا کا کس قدر خیال رکھتے تھے:
’’اے لوگو تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں؛ حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو تم میری اعانت کرو، اگر برائی کی طرف جاؤں تو سیدھا کردو۔ صدق امانت ہے اور کذب خیانت ہے۔ تمہارا ضعیف فرد میرے نزدیک قوی ہے؛ یہاں تک کہ میں اس کا حق واپس دلادوں، ان شاء اللہ۔ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اس کو خدا ذلیل وخوارکردیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری عام ہوجاتی ہے خدا اس کی مصیبت کو بھی عام کردیتا ہے۔ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو؛ لیکن جب خدا اوراس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر اطاعت واجب نہیں۔ اچھا! اب نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ خدا تم پر رحم کرے‘‘۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد رعایا کے حقوق اور ان میں عدل ومساوات کے فروغ کو کس حد تک قائم رکھا اور رعایا کو احساس دلایا کہ میری اطاعت معروف میں کرنا اور جو فعل میں خلاف شرع کروں، اس میں میری اطاعت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؛ چنانچہ اس تقریر سے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ میری پالیسی غیر مسلموں کے حقوق کی بھی ضامن ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ہدایات ہمیں فتوحات میں ملتی ہیں، جو آپ نے لشکر اسلام کے سپہ سالاروں کو تحریری یا زبانی طور پر دیں وہ غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے عزت وآبرو نیز جان ومال کی ضامن ہیں۔ جب آپ نے ملک شام کی فتوحات کے لیے فوج بھیجی تو سپہ سالاروں کو جو ہدایات ارشاد فرمائیں وہ انتہائی اہم ترین ہیں، آپ نے فرمایا:
’’میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، اللہ کے راستے میں جہاد کرو جن لوگوں نے خدا کو مانے سے انکار کردیا ہے، ان سے جنگ کرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت فرمائے گا۔ غلول (مال غنیمت میں چوری) نہ کرنا، غداری نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا، زمین میں فساد نہ مچانا اور دیے ہوئے احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا، کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھل دار درخت کوکاٹنا، غیرمسلموں کی کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنھوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کررکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے کہ جن پر (تباہی وبربادی سے بھرپور) شیطنت سوار ہے اور وہ شیطانی سوچ کے حامل ہیں جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑادو‘‘۔
یہ ہدایات سیدنا ابوبکرؓ کی عمومی ہیں جن کا تعلق ریاست کے تمام شہریوں (بشمول غیر مسلم رعایا) سے ہے اور ان ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ عہد صدیقی میں غیر مسلموں کے حقوق ان کی جان ومال، عزت وآبرو، عبادت خانے اور ان کے مذہبی پیشواؤں وغیرہ کی حفاظت کی گارنٹی تحریری دستاویزکی شکل میں عطا کی گئی تھیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی لشکر کے تمام سپہ سالار ان ہدایات پر ہمیشہ عمل پیرا رہے۔(دارالعلوم دیوبند)