ذوق انفرادیت

206

عبدالرشید طلحہ نعمانی

امام ابو عیسی ترمذیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’جامع ترمذی‘‘ میں صحابیٔ رسول سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ایک روایت نقل فرمائی ہے: ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عمرؓ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا، کہا: اے لوگو! میں تم میں کھڑا ہوا ہوں جس طرح رسول اللہؐ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: میں تمہیں اپنے صحابہ کے متعلق وصیت کرتا ہوں پھر ان کے بعد والوں کے لیے اور پھر ان سے بعد آنے والوں کے لیے۔ اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا؛ یہاں تک کہ آدمی قسم اٹھائے گا؛ حالانکہ اس سے قسم طلب نہیں کی جائے گی۔ آدمی گواہی دے گا؛ حالانکہ اس سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ آگاہ رہو! کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرتا؛ مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ جماعت کو لازم پکڑو اور فرقوں میں بٹنے سے بچو! یقینا شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے۔ جو جنت کی خوشبو چاہتا ہے وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔ جس کو نیکی اچھی لگے اور برائی بری محسوس ہو وہ مومن ہے‘‘۔
مذکورہ روایت میں نبی پاکؐ نے امت کو بیش قیمت نصیحتوں سے نوازا اور خیرالقرون کے بعد احوال کے بدل جانے کی پیش گوئی سناتے ہوئے ارشاد فرمایا: صحابہ کے ساتھ خیر وبھلائی کا معاملہ کرو! اور ان کے حق میں میری وصیت قبول کرو! جب حالات دگر گوں ہوجائیں تو تفرد و شذوذ اختیار کرنے کے بجائے جماعت کو لازم پکڑو! اسی میں عافیت ہے، یہی کامیابی کی کلید ہے اور یہی راہ نجات ہے۔
ایک دوسری روایت میں جماعتِ مسلمین اور جمہور سے الگ راستہ اختیار کرنے پر وعید بھی سنائی اور فرمایا: ’’اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ (کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا‘‘۔ (ترمذی)
اسی طرح جلیل القدر صحابی رسول سیدنا معاذ بن جبلؓ جو صحابہ کرامؓ میں اونچا مقام رکھتے ہیں، نبی اکرمؐ نے آپ کے علم وفقہ کا اس طرح اعتراف فرماتے ہیں: صحابہ میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم معاذ بن جبل کو ہے اور آپ کو حاکم و گورنر بنا کر یمن کی طرف روانہ فرماتے ہیں اور بھیجنے سے قبل ایک مختصر سے مکالمے کے بعد آپ پر غیرمعمولی اعتماد کا اظہار بھی فرماتے ہیں۔ ان سے منقول ہے کہ ایک زمانے میں قرآن کا پڑھنا اور اس کا علم عام ہوجائے گا۔ عورت، مرد اور بچے سب اس کو پڑھیں گے۔ ایسے وقت میں آدمی سوچے گا کہ میں نے قرآن کا علم حاصل کیا؛ مگر میں مقتدا نہ بن سکا۔ اچھا لاؤ! میں لوگوں کے درمیان اس کا نماز وغیرہ میں خوب اہتمام کروں، شاید اس سے لوگ میری مقتدائیت تسلیم کرلیں۔ پھر وہ خوب اس کا اہتمام کرے گا؛ تب بھی اس کی پیروی نہ کی جائے گی، تب وہ کہنے لگے گا کہ میں نے قرآن پڑھا؛ مگر مقتدا نہ بن سکا۔ اس کا زبردست اہتمام کیا، یعنی نمازوں میں پڑھا، لوگوں میں اس کی اہمیت ظاہر کی، تب بھی لوگوں نے مجھے نہیں مانا، اچھا اب گھر میں مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہوں، شاید اس سے لوگوں کے نزدیک میری اہمیت ہو، پھر وہ گھر میں مسجد بناکر خلوت نشینی اختیار کرے گا؛ اس کے باوجود بھی اسے کوئی نہیں پوچھے گا۔ وہ کہے گا: میں نے قرآن پڑھا، تب کسی نے نہیں پوچھا۔ میں نے قرآن کا اہتمام کیا، تب بھی لوگ میرے پیچھے نہ چلے۔ میں اپنے گھر میں مسجد بناکر بیٹھ گیا، تب بھی کسی نے توجہ نہیں کی۔ اچھا اب اللہ کی قسم! ایسی باتیں لاؤں گا جن کا وجود نہ اللہ کی کتاب میں ہوگا، اور نہ ہی لوگوں نے اللہ کے رسول سے وہ باتیں سنی ہوں گی۔ شاید تب لوگ میری پیروی کریں۔ سیدنا معاذؓ نے فرمایا کہ خبردار جو بات وہ لایا ہے، اس سے دور ہی رہو؛ کیونکہ وہ سراسر گمراہی ہے۔ (دارمی)
موجودہ حالات کی مناسبت سے ہم اپنی اس تحریر کا اختتام مفکر اسلام علی میاں ندویؒ کی تقریر کے اس چشم کشا اقتباس پرکرتے ہیں: ’’تیسری بات جو بہت تجربہ کی ہے وہ یہ ہے کہ میں نے بھی کتابیں پڑھی ہیں، اسلام کے مذاہبِ اربعہ اور ان سے باہر نکل کر تقابلی مطالعہ کیا ہے، شاید کم ہی لوگوں نے اس طرح کا مطالعہ کیا ہو۔ ان تمام کے مطالعے کے نچوڑ میں ایک گُر کی بات بتاتا ہوں کہ جمہور اہلِ سنت کے مسلک سے کبھی نہ ہٹیے گا۔ اس کو لکھ لیجیے، چاہے آپ کا دماغ آپ کو کچھ بھی بتائے، آپ کی ذہنیت آپ کو کہیں بھی لے جائے، کیسی ہی قوی دلیل پائیں جمہور کے مسلک سے نہ ہٹیے۔ اللہ تعالی کی جو تائید اس کے ساتھ رہی ہے، جس کے شواہد وقرائن ساری تاریخ میں موجود ہیں۔ چونکہ اللہ تعالی کو اس دین کو باقی رکھنا تھا اور باقی رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اصل حالت پر قائم رہے، ورنہ بدھ مذہب کیا باقی ہے، عیسائیت کیا باقی ہے؟ عیسائیت کے بارے میں قرآن کا ’’ولاالضالین‘‘ کہنا ایک معجزہ ہی ہے، یعنی وہ پٹری سے بالکل ہٹ چکی تھی، اور اللہ تعالی نے چونکہ اس دین اسلام کے بارے میں فرما دیا ہے ’’اِنَّا نَحنْ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَانَّا لَہْ لَحَافِظْونَ‘‘ اور اس کے ساتھ جو تائید ہے ، جو قوی دلائل ہیں، جو سلامتِ فکر اور سلامتِ قلب ہے، اس کے ساتھ جو ذہین ترین انسانوں کی محنتیں اور غور وخوض کے نتائج ہیں اور ان کا جو اخلاص ہے اور ذہن سوزی ہے، وہ کسی مذہب کو حاصل نہیں ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے اور آپ کے استاد مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اپنے بعض شاگردوں سے کہی، جیسا کہ مولانا اویس صاحب نقل کرتے تھے اورسید صاحبؒ سے ان کے استاد مولانا شبلیؒ نے کہی تھی۔ بعض لوگ چمک دمک والی تحریر پڑھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اور شہیدوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہیں علمائے سلف کا مذاق اڑاتے ہیں ، کہیں مفسرین ان کے تیر کا نشانہ بنتے ہیں ، لہٰذا مسلک جمہور سے اپنے کو وابستہ رکھیے، اس کا بڑا فائدہ ہوگا، اللہ کی خاص عنایت ہوگی، اس کی نصرت وبرکت ہوگی اور حسنِ خاتمہ بھی ہوگا۔‘‘ (خطباتِ علی میاں، 348-349/1)