انعام الرحیم کس کے پاس ہیں؟

162

16دسمبر سے لا پتا ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم کا سراغ مل گیا ، وہ فوج کی تحویل میں ہیں۔ وزارت دفاع کی بڑی عنایت کہ17دن بعد اس کا اعتراف کر لیا کہ مغوی ان کے قبضے میں ہے ۔ کرنل انعام الرحیم کے اغوا پر روزانہ ہی خبریں آ رہی تھیں کہ وہ لا پتا ہیں لیکن وزارت دفاع خاموش بیٹھی رہی ۔ اسے پہلے ، دوسرے دن ہی بتا دینا چاہیے تھا کہ انعام الرحیم اس کے قبضے میں ہیں ۔ انعام الرحیم کو16 دسمبر کی شب راولپنڈی میں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا ۔ ان کے بیٹے نے بتایا کہ رات گئے گھر کی گھنٹی بجی اور جب انعام الرحیم نے دروازہ کھولا تو سیاہ لباس میں ملبوس9,8 افراد گھر میں گھس آئے اور انعام الرحیم کو پکڑ کر لے گئے ۔ گھر والوںکو دھمکی بھی دی کہ اگر کہیں رپورٹ درج کرائی تو نتائج سنگین ہوںگے ۔ معاملہ جب عدالت میںگیا تو وزارت دفاع نے اعتراف کیا کہ مغوی ان کی تحویل میں ہے ۔ انعام الرحیم لا پتا افراد کے حوالے سے مقدمات کی پیروی کر رہے تھے ۔ کیا ان کو اغوا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ کوئی یہ نہیں چاہتا ، ان معاملات کی تحقیقات ہو ۔ لیکن ایسا تو وہ ہی چاہے گا جو لوگوں کو لا پتا کرنے کا ذمے دار ہو ۔ پاک فوج یا وزات دفاع یہ کیوں چاہے گی؟ وزات دفاع کا کام تو دفاع کرنا ہے نہ کہ لوگوں کو اغوا کرنا ۔ انعام الرحیم کو جس طرح گھر سے اُٹھایا گیا ہے وہ بجائے خود ایک مجرمانہ فعل ہے ۔اس طرح تو جرائم پیشہ تنظیمیںکرتی ہیں ۔ کراچی میں یہ کام ایم کیو ایم کیا کرتی تھی اور پھر بوری بند لاشیں ملتی تھیں ۔ وزارت دفاع تو ایک معزز ادارہ ہے ۔ اگر انعام الرحیم پر کوئی الزام ہے تو انہیں ضابطے کے تحت گرفتار کرنا چاہیے تھا ۔ ایسے معاملات میں گھر والوں کو خوف رہتاہے کہ مغوی کو مار نہ دیا جائے ۔ اب کم از کم یہ اطمینان تو ہو گا کہ فوج کا مغوی زندہ ہے ۔ عدالت عالیہ نے بھی استفسار کیا ہے کہ کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ کو گھر سے کس لیے اٹھایا گیا اور کس قانون کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے ۔