ابھی کل کی بات ہے

184

ابھی کل کی بات ہے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کنٹینر سجا ہوا تھا، دن رات ترانے گائے جاتے تھے اور امید دلائی جاتی تھی کہ نواز شریف کی کرپٹ حکومت ختم ہوجائے تو ملک میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی، اسی کنٹینر پر کھڑے ہوکر بجلی کے بل جلائے گئے کہ بجلی کی قیمت حد سے زیادہ ہے، اور اعلان کیا جاتا تھا کہ اگر قرض لیا جائے اور تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھنے لگیں تو سمجھیں حکمران کرپشن کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ہمیں حکمرانوں کی کرپشن کی یہ نشانیاں بتائی تھیں اس ملک میں ایک صلاح الدین گزرا ہے، اس نے بھی ایک ہی سوال پوچھا تھا، پتا ہے پولیس نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ جی ہاں یہ سب کچھ اسی دور میں ہوا لیکن اس کے باوجود ہمت کرکے پوچھنا یہ ہے کہ آج کل کیا ہو رہا ہے۔ اب تو این آر او بھی آگیا، قرض بھی لیے گئے، قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں، بجلی، گیس، تیل سب کی قیمت کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں، لوگ تنگ ہیں کچھ ہی عرصہ کی بات ہے جب وزیر اعظم عمران خان سے پارلیمنٹ کی لابی میں ایک سوال پوچھا گیا کہ حکومت کرنا آسان ہے یا اپوزیشن کرنا آسان ہے، جناب وزیر اعظم نے جواب دیا تھا کہ حکومت کرنا بہت ہی آسان ہے۔ یہ بات انہوں نے بالکل ٹھیک کہی، اگر کسی کی فکر ہی نہ ہو تو سب آسان ہے اور ویسے بھی ایک ایسی حکومت کرنا بہت ہی آسان ہوتی ہے جسے سب شوق سے اقتدار میں لے کر آئے ہوں اور یہ حکومت بھی نجانے کتنے پاپڑ بیلنے کے بعد، یک طرفہ ٹریفک چلا کر دن رات کی بڑی محنت سے لائی گئی ہے اب یہی حکومت سب کو چوروں، ٹیکس بچانے والوں اور این آر او مانگنے والوں کے چکر میں ڈال کر ایسے فیصلے کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ملکی صنعتیں بند، برآمدات ختم اور بیروزگاری و مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
نئے سال کا پہلا تحفہ پٹرول، بجلی اور ایل پی جی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرکے دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 2020ء خوش خبریوں اور اچھی خبروں کا سال ہوگا لوگ مطمئن ہوکر سو گئے، اگلے روز جب یکم جنوری کو صبح اٹھے تو اخبارات کی سرخیاں چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ بجلی، گیس، تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے اور اس سے اگلے روز تو چینی منڈی سے غائب ہونا شروع ہوگئی کیسی خوشخبری ہے کہ سی این جی کی فی کلو قیمت پٹرول سے بھی زیادہ ہوگئی ہمارے مہربان اسد عمر تسلی دیا کرتے تھے اور اسمبلی میں اعدادو شمار سے ثابت کرتے تھے کہ پٹرول کی ایک لٹر قیمت کتنی ہے اور حکومت کتنا ٹیکس لیتی ہے اب نجانے وہ کہاں سو رہے ہیں۔ ہاں یاد آیا وہ تو اپنے صاحب زادے کی شادی میں مصروف تھے، انہیں بیٹے کی شادی کی مبارک ہو اس شادی میں بہت اچھا ڈانس بھی کیا اس پر بھی ان کے لیے مبارک باد بنتی ہے۔ حکومت بڑی چالاک ہے ہوسکتا ہے حکومت نے ان کی نجی مصروفیات دیکھ کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھا دی ہو اور شاید اسی لیے اسد عمر کو بھی علم نہیں ہو سکا حقائق یہ ہیں کہ حکومت نے 2019ء میں 6 مرتبہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جبکہ گیس کی قیمتوں میں 4 مرتبہ اضافہ کیا بجلی کے نرخوں میں نیپرا نے 4 روپے 90 پیسے اضافہ کرنے کی اجازت دی یہ ادارہ تو صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا مگر کیا کریں قول تو یہی ہے کہ اگر قیمتیں بڑھ رہی ہوں تو سمجھیں حکمران کرپشن کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے چلیے اسی پر بات کر لیتے ہیں ملکی بلڈرز نے حکومت کو جواب بلکہ پیش کش کی تھی کہ وہ پانچ مرلے کا گھر تیرہ لاکھ میں تعمیر کرکے دے سکتے ہیں، حکومت نے برطانیہ اور دیگر ممالک سے ماہرین بلائے انہوں نے پانچ مرلے کے گھر کا تخمینہ پچیس لاکھ کا دیا ہے اور وہ اسی قیمت پرکام بھی کرنا شروع کرنے والے ہیں اب خوشخبری یہ ہے کہ جو گھر پہلے تیرہ لاکھ میں ملنا تھا اب پچیس لاکھ میں ملے گا، لیکن بات تو وہی ہے کہ جب حکمران قرض لے سمجھیں کہ کرپشن ہورہی ہے۔ مہنگائی ہوجائے تو سمجھیں کرپشن ہورہی ہے، لہٰذا ہم سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے ہمیں نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر رہنمائوں سے کوئی غرض نہیں ہے ہماری خواہش ہی نہیں بلکہ ہماری بقاء اسی میں ہے کہ جس نے بھی مال لوٹا ہے اس سے وصول کیا جائے لیکن تحریک انصاف کی حکومت اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرے، کہ کون کون پناہ لیے ہوئے ہے۔ لاہور جا کر دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے… قبضہ مافیا چھایا ہوا ہے سرکاری اداروں کے ملازمین، محکمہ ایکسائز کے ملازمین کس طرح لوگوں کے پلاٹوں پر قبضہ کرکے جعلی کاغذات بنا کر انہیں تنگ کر رہے ہیں جائیں ذرا ٹائون شپ جاکر دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے اور معصوم لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔