غیر جانبدار احتساب یا سیاسی تماشا

208

محمد اکرم خالد
وطن عزیز اس وقت مختلف نوع کے مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ یہ مسائل معاشرتی بھی ہیں، معاشی اور سیاسی بھی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی بساط پر پھیلے ہوئے عدم رواداری کے طرز عمل اور انصاف سے رو گردانی نے ان تمام مسائل کو جنم دیا ہے۔ یہ ایک بدہی حقیقت ہے کہ جہاںسیاست رواداری اور انصاف کی قدر سے محروم ہو، وہاں خلفشار اور افراتفری قدم جما لیتی ہیں جو معاشی اور معاشرتی بحران کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان اس وقت ایسی ہی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ملک کو مستحکم اور مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے والی قوتیں حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے سے نالاں و بیزار ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف کردار کشی اور دشنام طرازی میں مصروف ہیں۔ ان کا اختلاف قومی مسائل کو حل کرنے پر نہیں ہے بلکہ ان کا جھگڑا ان کا ذاتی عناد ہے۔ دوسری جانب حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کاروباری زندگی میں ایک بھونچال برپا ہے جو بے روزگاری کا سبب بن رہا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے۔ ملک میں احتساب اور کرپشن فری پاکستان کا منجن فروخت کیا جارہا ہے احتساب کے نام پر سیاسی انتقام ہوتا نظر آرہا ہے گزشتہ دنوں سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی رہائی پر ن لیگ میں جشن کا سما تھا تو دوسری جانب سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کی گرفتاری نے ن لیگ کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے یہاں یہ بات بڑی واضح ہے کہ اس وقت احتساب کے نام پر تماشا لگا ہوا ہے۔ اگر نیب کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو بڑی بڑی گرفتاریاں نیب کی جانب سے کی گئیں مگر کسی پر بھی کرپشن ثابت نہیں کی جاسکی، بس الزام کی بنیاد پر سینئر سیاستدانوں کو کئی ماہ سے نیب نے حراست میں رکھا ہوا ہے جو آہستہ آہستہ عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا ہورہے ہیں جو نیب کے تحقیقاتی اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔
اگر ہم وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات مان لیں کہ ماضی کی حکومتوں نے اس ملک اس کے اداروں کو سیاسی غلام بنا کر کرپشن کی اور بیرون ملک اپنے ناجائز اثاثے بنائے سیاسی خانہ بدوشوں کو ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اپنی جماعت میں شامل کر کے اس ملک کے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا موقع فراہم کیا‘ اگر ہم خان صاحب کی اس بات سے بھی اتفاق کر لیں کہ جب حکمران جماعت پر کرپشن کے الزامات لگے تو ان الزامات کی درست سمت پر تحقیقات کسی صورت ممکن نہیں اگر خان صاحب کی یہ بات بھی مان لی جائے کہ جب ملک میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے تو حکمران جماعت کی نااہلی ثابت ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ہم خان صاحب کی ان تمام انوکھی باتوں کو قبول کرتے ہوئے یہ جانا چاہتے ہیں کہ ماضی کی حکومت اور آپ کی حکومت میں کیا واضح فرق ہے؟ نیا پاکستان تبدیلی کا پاکستان کی ہر گیز دعویدار نہیں تھیں، مان لیتے ہیں کہ ماضی کے حکمران چور، ڈاکو، کر پٹ، ملک و قوم کے دشمن تھے یہ قوم اُن کی نالائقی سے تنگ تھی۔ مگر خان صاحب اس قوم نے تو آپ سے بڑی اُمیدیں وابستہ کی تھیں آپ نے مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے اس قوم کو ریاست مدینہ کی طرز کا پاکستان بنانے کا خواب دکھایا آپ نے جناح کے پاکستان میں تبدیلی لانے کا دعویٰ کیا، غریب عوام کی زندگیوں میں خوشحالی، پولیس نظام میں بہتری، انصاف، علاج، تعلیم، روزگار کی بہتر سے بہتر فراہمی کا دعویٰ، غیر جانبدار شفاف احتساب کا عمل سب سے پہلے اپنی ذات اپنی جماعت سے شروع کرنے کا دعویٰ کیا گیا مگر افسوس ان سب دعوئوں نے ڈیڑھ سال ہی میں دم توڑ دیا تجاوزات کے نام پر غریب کے گھر روزگار گرا دیے گئے مگر بنی گالہ ریگولر کرالیا گیا۔ ن لیگ پیپلز پارٹی کے بیرون ملک اثاثوں غیر قانونی دولت پر احتساب کا جن بے قابو کر دیا گیا مگر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ پچھلے پانچ سال سے رکوایا جارہا ہے۔ غیر منتخب افراد کے دم پر کابینہ چلائی جارہی ہے۔ خانہ بدوش سیاستدانوں کے سہارے آپ کا اقتدار قائم ہے آپ کی اپنی جماعت کے لوگ آپ کے سیاسی تضاد سے پریشان ہیں۔ یوٹرن کا دوسرا نام جھوٹ فریب سمجھا جاتا ہے مگر آپ نے یوٹرن لینے والے سیاستدان کو اعظیم لیڈر قرار دے دیا ہے۔ محترم وزیر اعظم خدارا یہ ملک و قوم مزید کسی ایڈونچر کا متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ ریاست مدینہ کا مذہبی کارڈ نہ کھیلا جائے، بڑی معذرت کے ساتھ جب بھی آپ کی حکومت پر کوئی آنچ آتی ہے یا جب آپ اپنے دوستوں کی خوشی کے لیے کرتار پور کا افتتاح کرتے ہیں تو آپ فوری قوم سے خطاب کرتے ہیں مگر ٹرین حادثے میں 74 افراد ہلاک ہوگئے، ساہیوال سانحہ پر انصاف نہ ملا اور سب سے بڑھ کر 25 دسمبر اس ملک کے بانی قائداعظم کے یوم پیدائش پر آپ کا قوم سے خطاب نہ کرنا کیا مناسب تھا؟
اس وقت اس قوم کو نئے پاکستان کی ضرورت نہیں بلکہ اس ملک وقوم کو ایک بہتر نظام، بہتر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر کرپشن فری پاکستان کی بنیاد رکھنا ہے تو احتساب یہ تماشا بند کر کے بہتر اصلاحات کے ساتھ غیر جانبدار شفاف احتساب جس میں عمران خان جہانگیر ترین علیم خان زلفی بخاری بابر اعوان اعظم سواتی فردوس عشق اعوان چودھری برادران نفیس لوگوں سمیت میاں صاحب زرداری صاحب بلاول مریم حمزہ شہباز سمیت ہر اُس کرپٹ افراد کا احتساب ہونا چاہیے جس نے اس ملک و قوم کے بہتر مضبوط مستقبل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے یہ ملک ہمارے بزرگوں کی بے مثال قربانیوں کا نتیجہ ہے ان قربانیوں کی تذلیل نہ کی جائے۔