ماحولیاتی آلودگی اور قبائل

98

اخباری اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی کرشنگ مشینوںکی بغیر اجازت تنصیب اور استعمال پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے۔ اس مسودے کے مطابق رہائشی علاقوں میں کرشنگ مشین یا فیکٹری لگانے کے لیے لائسنس کا اجراء نہیں کیا جائے گا جب کہ مسودے میں کرشنگ مشین کی تنصیب اور ان کے استعمال کے لیے لائسنس حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں 5لاکھ روپے جرمانہ اور کرشنگ مشین یا فیکٹری کو سیل کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ خیبر پختون خوا پاورکرشر انسٹالیشن، آپریشن اینڈ ریگولیشن ایکٹ 2019ء کے تحت صوبے میں رہائشی علاقوں، مساجد، تعلیمی اداروں، زرعی اراضی، جنگلات، اسپتال، کینال، ٹنل، ٹرانسمیشن لائن، پلوں، مرکزی شاہراہوں پر کرشنگ مشین نصب کرنے یا ان کے استعمال پر پابندی عائد ہوگی اور ان علاقوں سے محفوظ فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے لائسنس کا اجراء کیا جائے گا کوئی بھی شخص لائسنس حاصل کیے بغیر کرشنگ مشین نصب یا ان کا استعمال نہیں کر سکے گا جبکہ صوبہ بھرمیں پہلے سے نصب اور کام کرنے والی کرشنگ مشینوں کے مالکان مذکورہ قانون لاگو ہونے کے بعد 30دن کے اندر اندر لائسنسنگ اتھارٹی سے رجوع کریںگے اور اگرکوئی شخص پہلے سے نصب اور زیر استعمال کرشنگ مشین کے لائسنس کے حصول کے لیے اتھارٹی سے رجوع نہیں کرتا تو حکومت کے پاس ان کے کرشنگ مشین، فیکٹری کو سیل کرنے کا اختیار ہوگا۔ لائسنس دینے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے گا جس کے تحت کرشنگ مشین یا فیکٹری لگانے والوں کو متعلقہ ادارے کے پاس فیس جمع کرنے کے علاوہ تمام ضروری دستاویزات بھی پوری کرنی ہوں گی۔ یہ لائسنس ایک سال کی مدت کے لیے دیا جائے گااور اس لائسنس کی ہر سال تجدید کی جائے گی۔
انسانی صحت کے لیے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری بلکہ یہ کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے جسے کوئی بھی کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچائے تو اس کا سدباب اور روک تھام ریاست اور متعلقہ ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے لیکن بدقسمتی سے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے ہاں عام انسانوںکو نہ توصاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی انہیں کھلی فضا دستیاب ہے۔ دراصل بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ 5 سے10 برسوں کے اعداد وشمار سے ثابت ہوا ہے کہ فضائی آلودگی سے شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سڑکوں پر دھواں اُڑاتی ہوئی گاڑیاں، فیکٹریوں، کارخانوں سے اٹھتا ہوا دھواں اور کرشنگ مشینوں سے اٹھنے والی دھول جہاں فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے وہاں اس آلودگی سے دمہ، ٹی بی، چھاتی کا سرطان، کھانسی اور کئی دیگر موذی امراض میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی کو دیکھتے ہوئے عام تاثر یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ جوہری بم سے بھی کئی گنا خطرناک بم کی صورتحال اختیار کر چکا ہے جس کے اثرات سے سارا کرہ ارض خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں تقریباً 1.6 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا سب سے اہم خطرہ وہ باریک اور چھوٹے ذرات ہیں جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جا کرمختلف امراض پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پچھلے چند سال کے دوران صرف براعظم ایشیا میں محض گھروں کے اندر لکڑی اور کوئلے کے چولہوں پر کھانا پکانے سے پیدا ہونے والا دھواں 4.3 ملین انسانوں کی ہلاکت کی وجہ بنا ہے جبکہ گھروں کے باہر پائے جانے والے غبار اور دھوئیں کے نتیجے میں 3.7 ملین اموات واقع ہوئیں ہیں جن میں سے 90 فی صد اموات ترقی پزیر ممالک میں رونما ہوئیں ہیں۔ ان اعداد وشمار اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو دیکھتے ہوئے اگر ہم اپنے ارد گرد واقع قبائلی علاقوں کو درپیش خطرات کو مد نظر رکھیں تو صورتحال اور بھی سنگین اور بھیانک نظر آتی ہے۔ قبائلی علاقے چونکہ ماضی میں شہر ناپرسان کا منظر پیش کرتے رہے ہیں اور یہاں چونکہ قانون کی عمل داری نہ ہونے یا پھر صرف کسی حد تک امن وامان اور نظم ونسق تک محدود تھی اس لیے ماضی میں کسی نے بھی قبائل کونہ تو انسان سمجھا ہے اور نہ ہی انہیں انسانیت کے لیے درکار کم از کم بنیادی سہولت دینے کی فکر کسی کو لاحق ہوئی۔ ان ہی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ قبائل کو فضائی آلودگی کی شکل میں ایک سنگین چیلنج کے طور پر درپیش ہے۔ اس ضمن میں کسی دور دراز کے قبائلی علاقے کو بطور مثال پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر صرف پشاور سے متصل ضلع خیبرکی جمرود تحصیل میں انتظامیہ کی ناک کے نیچے کسی قانون اور ضابطے سے ماوراء قائم درجنوں کرشنگ مشینوں سے 24گھنٹے اڑتی ہوئی دھول اور فضائی آلودگی جس سے تقریباً ہر دوسرا فرد ناک، کان، گلے سمیت سینے اور پھیپھڑوں کے خطرناک امراض میں مبتلا نظر آتا ہے کو دیکھا جائے تو اس سے قبائل کی بے بسی، چند ٹکوں کی خاطر انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کی بے حسی اور سول انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے لہٰذا توقع ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے نہ صرف ان انسانیت کش کرشنگ مشینوں کو قانون کے ضابطے میں لائیں گے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے جو نیا قانون بنایا جارہا ہے اس کے دائرہ کار میں بندوبستی علاقوں کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کوبھی لازماً شامل کریں گے۔