آج سے بتیس سال قبل‘ جی ہاں! پورے بتیس سال قبل کشمیر جنت نظیر کی جموں میں وادی لوباب میں تحریک آزادی کی پہلی چنگاری پھوٹی تھی، جموں میں دریا کے کنارے چوبیس کلو میٹر لمبی وادی لوباب، محبت اور خوبصورتی کی وادی مشہور ہے۔ کپواڑہ میں پہلا مجاہد یہیں سے اٹھا تھا، سب کو یقین تھا کہ تحریک آزادی کشمیر آج نہیں تو کل، ضرور کامیاب ہوگی، مگر کسی کو گمان نہیں تھا کہ اس پر خطر راہ میں سازشوں، بے عملی، بے حمیتی کی وادیاں بھی آسکتی ہیں۔ پوری دنیا میں اگر کوئی ملک کشمیریوں کا وکیل ہے تو وہ پاکستان ہے، مگر آج اسلام آباد اور آج کے حکمران کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، امپائر بھی اسی کے ساتھ ہے اور پچ بھی ان کی اپنی ہی بنائی ہوئی ہے، ملک کے بیس کروڑ عوام بالکل اسی طرح جنگلے میں بند ہو کر میچ دیکھ رہے ہیں جس طرح شائقین آج کل جنگلوں کے پیچھے سے اسٹیڈیم میں میچ دیکھتے ہیں۔ عوام بے بس ہیں، جانتے ہیں کہ ٹیم اچھا نہیں کھیل رہی، مگر انہیں کہہ دیا گیا ہے کہ جو بے بس کشمیری مائوں بہنوں اور مظلوم کشمیری نوجوانوں کے لیے کنٹرول لائن کے پار جائے گا وہ کشمیریوں کا غدار کہلائے گا۔
پانچ اگست 2019 تک امید تھی، روشنی بھی تھی، چراغ بھی جل رہے تھے اور یہی سوچا جارہا تھا کہ آج نہیں تو کل کشمیر آزاد ہوجائے گا مگر پانچ اگست کے بعد چراغوں میں روشنی کہیں نظر نہیں آرہی۔ تہران، استنبول اور کوالالمپور میں جلنے والے چراغ بھی ہم خود ہی بجھانے نکلے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ: ’’مجاہد کی اذان اور ہے ملا کی اذان اور‘‘۔ اس خطہ کی تاریخ میر جعفر، میر صادق اور ٹیپو سلطان سے بھی واقف ہے، ٹیپو سطان باتوں سے نہیں عمل سے بنتے ہیں، یہ درست ہے کہ آج کے حکمران ٹیپو سلطان کا نام لے کر اپنا کام چلا رہے ہیں، مگر وادی لولاب جانتی ہے کہ آج کل میر صادق کس شکل میں موجود ہے، اس کا چہرہ عوام کی پہچان میں ہے، ہاں اگر کسی کو پہچان نہیں ہے تو وہ ہماری سیاسی قیادت ہے، جو مصلحت کا شکار ہے اور میر صادق کو ٹیپو سلطان سمجھ رہی ہے ایک دن آئے گا کہ سیاسی قیادت کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں رہے گا۔ جس طرح وادی لولاب میں نوجوان اٹھے تھے آزادی کی تحریک سری نگر سے اٹھے گی اور دہلی کو کھا جائے گی اور یہ تحریک کسی کو کامیابی کا کریڈٹ نہیں لینے دے گی یہ کریڈٹ سری نگر کے نوجوان کا ہوگا، وہاں کی عفت مآب مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کا ہوگا، وہاں کے جوان لہو کا ہوگا۔ سری نگر کے عوام کیا وہاں زعفران کے کھیت بھی قربانی دے رہے ہیں، سیبوں کے باغات قربانی دے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں آج کے حکمرانوں کی تقریریں، سیاسی قیادت کی مصلحت اور کشمیر کی آزادی کے محض نعرے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، گزشتہ بتیس سال سے چلنی والی آزادی کی تحریک میں اب تک بلا شبہ لاکھوں کشمیری شہید اور زخمی اور معذور ہوچکے ہیں، اربوں اور کھربوں مالیت کی املاک تباہ اور میلوں پھیلے ہوئے زعفران کے کھیت، سیبوں کے باغات اجڑ چکے ہیں، ڈھل جھیل اور اس کے شکارے خون کے آنسو رو رہے ہیں، قرآن کے الفاظ ہیں، نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل، کشمیری اپنی آزادی کے لیے اس کے مصداق نکلے ہوئے ہیں، اور میدان سجائے بیٹھے ہیں، انہیں امید اور یقین ہے کہ وہ ایک روز ضرور منزل پالیں گے مگر اس آزادی میں آج کے گفتار کے غازی اور محض باتوں کے ٹیپو سلطان کا کیا حصہ ہوگا؟
ابھی دو روز پہلے کی بات ہے، صدر مملکت فرماتے ہیں کہ کراچی میں امن و امان خراب رہا اور منشیات کا کاروبار پھیلا ہے، صدر صاحب کو ضرور اس بات کا پتا لگانا ہوگا کہ اس دور میں منشیات کا کاروبار ہی کیوں فروغ پایا ہے؟ کیا آج کل کے ٹیپو سلطان… کہیں بہک تو نہیں گئے… بہکے ہیں یا نہیں اس کا تو علم نہیں تاہم یہ نہیں جانتے کہ… پانچ اگست ہمارے لیے ایک امتحان بھی ہے اور آزمائش بھی، ایک کروڑ انسان، بچے بوڑھے اور جوان، خواتین سب قید ہیں، طالب علم اسکول نہیں جاسکے اور مریض اسپتال نہیں پہنچ پارہے، مگر انسانی حقوق کی علم بردار دنیا، سارا مغرب اور مشرق وسطیٰ، ایشیاء، سب سو رہے ہیں اب وہاں کی تاریخ تبدیل ہورہی ہے بلکہ مسخ ہو
رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور لداخ خطے کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی نصابی کتب میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیاگیا ہے۔ بھارت کی انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت نے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کو ہدایت کی گئی ہے وہ جموںوکشمیر اور لداخ میں تعلیم کے بارے میں پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لے اور نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ مقبوضہ کشمیر میں نصابی کتب کو ہندوتوا ایجنڈے کے مطابق ڈھالاجائے لیکن یہ کام نہیں ہوسکے گا اس لیے نہیں کہ اسلام آباد میں باتوں کے ٹیپو سلطان بیٹھے ہیں، بلکہ مقبوضہ کشمیر آزادی کی ایک نئی حتمی تحریک اٹھے گی جو نیا آئین بنائے گی یہ تحریک اسی ماہ اٹھے گی۔ بچے، بوڑھے، جوان، کسان، کاشت کار، مزدور، سب اس میں شامل ہوں گے کشمیر میں آزادی کا پرچم لہرانے والا ہے، شہریت والا این آر سی قانون بھارت کے لیے قبرستان ثابت ہو رہا ہے یہ جنوری بہت اہم ہے 26 جنوری کو بھارت کے اندر بہت سے بھارت بن رہے ہیں، آزادی کے بہت سے پرچم لہرانے والے ہیں دہلی سرکار کتنا ظلم کرلے گی؟ کسے معلوم نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اگست کے بعد سے کشمیر میں 69 ہلاکتیں ہوئی ہیں حکومت نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں 24 ہفتوں سے نماز کی اجازت نہیں دی، حراست کے دوران بچوں کو مسلح افواج کے ہاتھوں غیر قانونی اور ناجائز نظربندیوں، ناجائز سلوک ہوا ہے، مگر ہمیں ٹیپو سلطان سے کوئی امید نہیں ہے تاہم … ہم ان مظالم کا لازمی بدلہ لیں گے۔