آئین اور قانون گئے…

191

اسامہ الطاف
سردیوں کی شامیں تو یونہی مشہور ہیں، اصل مزہ سردیوں کی راتوں میں ہے۔ یخ بستہ ہوائیں، خاموش گلیاں اور چارسو پھیلا اندھیرا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا رنگ موسم میں ڈھل گیا ہے، وحشت ناک تاریکی اور بے آرام کرنے والی ٹھنڈک کے باوجود اس کا لطف بے مثال ہے۔ سرد راتوں کے اس لطف کو دوہرا کرنے کے لیے ہم اکثر چچا غفور کے ڈھابے کا رخ کرتے ہیں، جہاں ہمارے ایسے چند اکا دکا آوارہ اور فارغ لوگ وقت گزاری میں مصروف ہوتے ہیں۔ آج ڈھابہ سنسان تھا، شاید رات زیادہ ڈھل گئی تھی، چچا غفور چائے کی پتیلی پر ہاتھ سیک رہا تھا اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح کچھ گنگنا رہا تھا، فرق صرف اتنا تھا کہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں پھر بھی کچھ ربط ہوتا ہے جبکہ چچا غفور کی گائیکی۔۔۔۔ میں پہنچا تو چچا اپنی دھن سے نکل گیا اور چائے تیار کرنے لگا۔ میں نے ارد گرد نظر دوڑائی، تقریباً تمام گھروں کی روشنیاں گل ہوچکی تھیں۔ عام دنوں میں اس وقت قدرے رونق ہوتی ہے لیکن نجانے خنکی میں ایسا کیا نشہ ہے جو لوگوں سرد راتوں اور ویران گلیوں کا لطف اٹھانے کے بجائے گرم رضائیوں میں مدفون ہونے پر مجبور کردیتا ہے!
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ سالار آگیا۔ سالار میرا ’’ڈھابہ بھائی‘‘ ہے۔ جیسے پیر بھائی ایک ہی شیخ کے فیوض سے مستفید ہوتے ہیں اور باہمی بھائی چارگی قائم کرتے ہیں اسی طرح میں اور سالار ایک ہی ڈھابے سے اپنی تسکین کا سامان ’چائے‘ حاصل کرتے تھے اور ڈھابہ بھائی ہونے کے ناتے بعض اوقات معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، فلسفی اور ہر موضوع پر ہر قسم کا ہذیان جو ذہن میں موجود ہوتا ایک دوسرے کو گوش گزار کرکے اپنا دل ہلکا کرتے تھے۔ رسمی سلام دعا کے بعد میں نے سالار سے روایتی سوال ’’اور کیا چل رہا ہے؟‘‘ پوچھا۔ چل تو بہت کچھ رہا ہے بلکہ اب تو جل بھی رہا ہے لیکن میں اب بولنے میں احتیاط کروں گا کیونکہ تم میرے معصومانہ خیالات اپنے شرانگیز کالموں کی زینت بناتے ہو، سالار کے لہجے میں مصنوعی خفگی اور تجسس تھا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آج میں بولوں گا لیکن تم صرف اتنا بتا دو کہ جل کیا رہا ہے؟ سالار کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سج گئی۔ جل رہا ہے، ہاں جل رہا ہے۔۔ دیکھو ناں چچا غفور کا پتیلا جل رہا ہے کیونکہ اس کے نیچے آگ جل رہی ہے، چچا غفور آگ بجھادے اور سب ٹھنڈا ہوجائے تو اس کا کاروبار کیسے چلے گا، سالار کا اشاہ پتیلے کی طرف تھا اور مجھے محسوس ہورہا تھا کہ آج شاید چائے سے پہلے سالار کسی اور مشروب کے جام بھر چکا ہے اس لیے بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔ میز کے ایک طرف میں تھا اور دوسری طرف سالار، درمیان میں چائے کے دو کپ جن سے ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔
یہ میری خوش قسمتی یا بدقسمتی تھی (یا دونوں کا مغلوبہ تھا) کہ سرد راتوں میں بھی میری ’’چائے پارٹنر‘‘ کوئی محترمہ نہیں سالار تھا۔ سالار نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے مجھے یاد دلا رہا ہو کہ آج مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا۔ میں نے کہا: سالار ہم دن رات اپنے لیڈران کے بے ایمان ہونے کا ماتم کرتے ہیں، اقاموں، سوئس بینکوں اور مے فیئرز کا رونا روتے ہیں، ہمیں ان کے یوٹرن اور بدلتے موقف پر غصہ آتا ہے لیکن ہم خود بحیثیت معاشرہ۔۔۔ میں نے ابھی take off ہی کیا تھا کہ سالار نے میری بات کاٹ دی۔ بس، آگے وہی گھسا پٹا بھاشن شروع نہیں کردینا کہ ہم عوام بے ایمان ہیں اس لیے ہمارے حکمران بھی بے ایمان ہیں، ہم خود بہتر نہیں ہوں گے تو حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ یہ فضول باتیں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں، سال ہا سال سے ہم ایک فرسودہ نظام میں قید ہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہم پر چلتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ ہمارا انضباط اور رویہ مغربی اقوام جیسا ہو! یہ سب فضول ہے، سالار گویا بھرا بیٹھا تھا لیکن اس کی بات غلط بھی نہیں تھی۔ مجھے البتہ افسوس صرف ہمارے معاشرے کا نہیں ان درس گاہوں کا ہے جو معاشرے کے معمار تیار کرتے ہیں اور جہاں معاشرے کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اخلاقیات اگر ہمارے نصاب کا حصہ نہیں ہے تو کم از کم درس گاہوں کے اندر ہمارے رویوں کا حصہ ہونا چاہیے، اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو کم از کم اخلاقیات کے منافی رویوں کی حوصلہ شکنی تو ہونی چاہیے۔ میں نے سالار سے کہا استاد معلم بھی ہوتا اور مربی بھی، لیکن ایسا استاد کیا اخلاقی تربیت کرے گا جو اپنی ’’پکی‘‘ سرکاری نوکری کے گھمنڈ میں وقت کی پابندی کرتا ہے نہ ادارے کے اصولوں کی، نگران نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے زیر نگیں ہر شے کو اپنے ذاتی جاگیر سمجھتا ہے؟ ہماری درس گاہیں جن کو معاشرتی بیماریوں کا تریاق کرنا تھا وہ خود معاشرتی امراض کا شکار ہوگئی ہیں، اب ماحول کچھ یوں بن گیا ہے کہ مستقبل کے معمار امتحانات میں بے ایمانی ایسے اخلاقی اور مذہبی جرم کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ میری جذباتی تقریر ختم ہوئی تو سالار نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ چسکی لیتے ہوئے کہا: اخلاقیات گئی بھاڑ میں تم چائے پیو چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔ میں نے کپ اٹھایا، چائے واقعی ٹھنڈی ہوچکی تھی، میں نے چچا غفور کو آواز دی جو ابھی بھی بے سری آواز میں کچھ بے ربط گنگنا رہا تھا۔
میرے ذہن کے پیالے میں ابھی بھی کچھ خبطی خیالات مچل رہے تھے اور الفاظ میں ڈھلنے کے لیے بے چین تھے۔ سالار نے میری طرف پھر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ شاید اس کو بے حسی سے حساس باتیں سننے کا چسکا لگ گیا تھا۔ میرے بے ہنگم خیالات پھر رواں ہوگئے، برداشت کی فاختہ ہمارے جنگل نما معاشرے سے اڑگئی ہے، میں نے قدرے ٹھنڈے لیکن مایوس کن انداز میں کہا۔ اختلاف رائے کو فطرتی تنوع کا مظہر اور بنیادی حق کے بجائے دشمنی اور نفرت کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ نااہل بیوپاریوں نے دکانیں کھول رکھی ہیں، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں جن کو ہر سوال، ہر شبہ ہر اختلاف میں فسق، زندقہ اور کفر کا رنگ نظر آتا ہے۔ ایک عالیشان مگر کھوکھلی دکان قومی سلامتی کی ہے، جس میں اسلحہ سے لیس غیر محفوظ لوگ بیٹھے ہیں، وہ اور ان کے چیلے ہر مخالف کو غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کررہے ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ ہولی صرف ایوانوں اور محلات میں سیاسی مجبوریوں کے تحت کھیلی جاتی تھی، اب ہائبرڈ وار فئیر اور ففتھ جنریشن وار ایسی غیر مفہوم اصطلاحات کا استعمال کرکے اس زہر کو معاشرے کی شریانوں میں دوڑا دیا ہے اور اب رشتہ داریاں اور دوستیاں انہی غداری کے فتووں اور ملک دشمنی کے الزامات کی نظر ہورہی ہیں۔ سالار نے پھر قدرے تحقیر آمیز لہجے میں کہا: برداشت گئی بھاڑ میں، تم چائے پیو۔ میرا ذہن ابھی خالی نہیں ہوا تھا، میرے تخیل میں کالے کوٹ، سفید پیراہن اور خاکی وردیاں تھی، یہ سب معزز اور باوقار تھے۔ مظلوم کی مدد کرنے والے، غریبوں کے مسیحا اور سرحدوں کے محافظ، ہر کوئی اپنی ذمے داری خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہا تھا۔۔۔ پھر یکایک دھند چھا گئی اور اس دھند نے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ معزز اور باوقار افراد جتھے اور قبیلے بن گئے، ان کی آنکھوں پر عصبیت کی پٹی بندھ گئی، یہ لاٹھیاں اٹھائے شیشے توڑنے لگے، اسلحہ اٹھا کر پارلیمان اور ایوان صدر کی دیواریں ٹاپنے لگے، آئین بوٹ تلے روند دیا گیا، مریض لاچار سسکنے لگے، پھر اس پر قبیلیت کے نعرے ’’ہم حفاظت کرنا جانتے ہیں‘‘۔ ’’ہم سبق سکھائیں گے‘‘۔ کا شور بلند ہوگیا، ایسا غلغلہ ہوا کہ قانون کی آواز بھی تھم گئی۔ سالار نے مجھے زور سے جھٹکا تو میں ہوش میں آیا اور اس سے قبل کے سالار مجھے چائے پینے کی تلقین کرتا میں نے خود ہی کہا: چائے پیتے ہیں، قانون اور آئین گئے۔