چھبیس سال پہلے‘ 1993 میں لاہور کے نواح میں ایک بستی میں کسی قبضہ مافیا کے خلاف اگر کسی کی پہلی آواز اٹھی تو وہ قاضی حسین احمد کی تھی‘ یہ آواز اگرچہ اب اس دنیا میں نہیں رہی‘ لیکن شاید اس آواز کی گونج اس کی بازگشت بھی کہیں گم ہوگئی ہے؟ اس لیے تو لاہور میں قبضا مافیا پھر سے سر گرم عمل ہے‘ لاہور ٹائون شپ سے لے ہر نواحی بستی تک اس مافیا کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں‘ مگر کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے والا نہیں‘ اب مافیا سرکاری اداروں میں گھس گیا ہے لاہور میں محکمہ ایکسائز کے ملازمین‘ تک جعلی کاغذات بناکر لوگوں کے پلاٹوں پر قبضہ کر رہے ہیں‘ جب بھی کسی کے پلاٹ پر قبضہ ہوتا ہے تو لوگ داد رسی کی امید سے اس آواز کو یاد کرتے ہیں کہ ظالمو قاضی آرہا ہے‘ مگر یہ آواز اب حقیقی معنوں میں خاموش ہوگئی ہے اور شاید اگر کہیں اس آواز کا پیغام زندہ ہو تو جا کر مظلوموں کو بتادیا جائے تاکہ انہیں امید ہو کہ کوئی قاضی آج بھی محمد بن قاسم بن کر قبضہ مافیا کے خلاف ان کی داد رسی کے لیے آجائے گا۔ قاضی حسین احمد اس ملک کی سیاست کا ایک روشن باب تھے‘ جن کی جرأت مند شخصیت نے جماعت اسلامی کے پیغام کو کاروان دعوت و محبت کے ذریعے پشاور سے ژوب‘ قلات‘ گوادر‘ تربت جیسے دور دراز علاقوں تک پہنچا دیا تھا‘ آج کے ماحول میں اگر وہ حیات ہوتے تو اس حکومت کو جرأت نہ ہوتی کہ وہ یہ اعلان کرے کہ جو جہاد کشمیر کے لیے پار گیا وہ کشمیر کا غدار ہوگا… قاضی حسین احمد جہاد کے لیے پار جانے والوں میں سب سے آگے ہوتے‘ وہ بہت ہی جرأت مند‘ بہادر‘ متحرک اور بیدار مغز رہنماء تھے۔ وہ تو بوڑھے لگتے ہی نہیں تھے‘ جب کہ آج کل کی جماعت اسلامی کی جوان قیادت تو جوان ہوتے بھی بوڑھی معلوم ہورہی ہے۔ قاضی حسین احمد کیا چاہتے تھے وہ صرف غلبہ اسلام اور نفاذ کے لیے جماعت اسلامی کے لیے اقتدار چاہتے تھے انہوں نے ایک آئیڈیے پر کام کیا کہ جماعت اسلامی کو اقتدار تک پہنچایا جائے کیونکہ جماعت اسلامی کی دعوت اور پروگرام منشور پر عمل اسی صورت ہوسکتا ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے قبل جب نگران وزراء اعظم کے ناموں کے فہرست تیار ہوئی تو قاضی حسین احمد کا نام سر فہرست تھا‘ ملک میں ایک دیانت دارانہ سیاسی کردار رکھنے والے سیاسی رہنماء کی حیثیت سے ان کا نام زیر غور آیا تھا۔ قاضی حسین احمد کو ہم سے بچھڑے سات برس ہوچکے ہیں‘ مگر ان کی یادیں آج بھی ہر سیاسی کارکن کے ذہن میں تازہ ہیں۔
بارہ جنوری1938 کو زیارت کاکا خیل میں مولانا عبدالرب کے گھر پیدا ہوئے‘ 2013 کو چار اور پانچ جنوری کی درمیانی شب اسلام آباد میں اپنے صاحب زادے انس فرحان قاضی کے گھر پر 74 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ان کے والد محترم قاضی عبدالرب جمعیت علماء ہند کے (صوبہ سرحد) کے سربراہ رہے قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا‘ اور پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور جہاں زیب کالج سوات میں لیکچرر رہے پشتو ان کی مادری زبان تھی اردو‘ فارسی‘ عربی اور انگریزی زبان پر انہیں بہت عبور حاصل تھا شاعر مشرق علامہ اقبال کے بہت شیدائی تھے اپنی تقریروں میں وہ اکثر ان کے شعر پڑھا کرتے تھے اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ رہے‘ جمیعت سے فارغ ہونے کے بعد 1970 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اٹھارہ نومبر 2002 سے تئیس جولائی2007 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے‘ اس سے پہلے وہ 1986 سے 1996 تک وہ سینیٹ کے رکن بھی رہے سات اکتوبر 1987 سے انتیس مارچ 2009 تک جماعت اسلامی کے امیر رہے‘ میاں طفیل محمد کے ساتھ مرکزی قیم (سیکرٹری جنرل) کی ذمے داری بھی نبھائی۔ ایران عراق جنگ‘ بلقان کے بحران‘ بوسینیا کے مسائل کے حل‘ چیچن مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے‘ اور افغان جہاد میں وہ افغان رہنمائوں کے شانہ بشانہ رہے ملک میں کرپشن کے خلاف جدوجہد کو انہوں نے جہاد سمجھ کرکیا‘ بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف عوام کو متحد کیا‘ دھرنا دیا اور لانگ مارچ کیاان کی ذاتی زندگی‘ ان کی سیاسی زندگی اور ان کی سماجی زندگی کے ہر ہر پہلو ہمارے لیے رہنمائی ہے بلاشبہ وہ ایک کامیاب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے‘ ان کی زندگی کے کسی بھی پہلو پر گفتگو کر لی جائے جدوجہد اور جہاد کی تیاری کے سوا ہمیں کچھ نہیں ملتا۔
یہ ستر کی دہائی کے کے ابتدائی دن تھے‘ قاضی حسین احمد کے پی کے (اس وقت صوبہ سرحد) کے چیمبر آف کامرس کے نائب صدر منتخب ہوئے‘ وہ تاجر بن کر افغانستان گئے جہاں اسلامی تحریک سے وابستہ افراد سے ربط اور قریبی تعلق پیدا کیا قاضی صاحب کی شادی چونکہ اپنے خاندان میں ہوئی تھی ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی وہی ماحول اور مزاج پایا جو قاضی صاحب کا تھا‘ قاضی صاحب کے سسرال اور والدین کا تعلق ایک قابل تعریف دینی گھرانے سے تھا کئی کئی روز جب قاضی صاحب گھر سے باہر رہتے تو وہ گھر سے باہر رہنے پر طوفان کھڑا کرنے کے بجائے نہایت محبت سے بچوں کی دل جوئی کرتی تھیں اور ان کی تربیت کرتیں کہ جہاد اور کشکمش اور مسلسل جدوجہد ہی ان کے والد کی اصل زندگی ہے قاضی صاحب جب گھر آتے تو بچوں کو خوب وقت دیتے۔ عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی ملک گیر عوامی تحریک میں وہ جیل گئے تو ان کی عدم موجودگی میں پشاور میں گھر کی تعمیر شروع ہوئی‘ جب یہ گھر بن گیا تو قاضی صاحب نے یہ گھر افغان مہاجرین کے لیے وقف کردیا اور پشاور میں جماعت اسلامی کے دفتر کے طور پر بھی یہ گھر استعمال ہوتا رہا ان کی زندگی عملی طور پر جہاد کے بہت قریب رہی ہے ایسا لگتا تھا کہ انہیں دنیا داری پسند نہیں ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ امت مسلمہ اقوام عالم کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے اور اس سے خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں لیکن وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ زندگی سے محبت کرنے والے موت سے عشق کرنے والوں کا کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں افغانستان کے صحرائوں‘ کشمیر کے مرغ زاروں‘ عراق‘ فلسطین کے میدانوں اور شیشان کے پہاڑوں میں وہ قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا ترانہ پیش کرتے رہے‘ جہاد اور جدوجہد کی تاریخ رقم کرنے والے سفر میں وہ کبھی پچھلی صفوں میں نہیں رہے ہمیشہ سینہ کھول کر آگے آگے رہے۔
اقبال سے ان کو عشق تھا اور اقبال کے کلام کے حقیقی پیغام کو وہ سمجھتے تھے ان کی اولاد آج بھی اس بات پر فخر کرتی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے قاضی حسین احمد جیسا والد عطا کیا وہ عموماً فجر کی نماز کے وقت اٹھتے تو اقبال کے یہ شعر گنگناتے تھے ’’اٹھو کہ ہو بھی چکا ہے فراق و ظلمت و نور‘‘ نماز فجر کے بعد قرآن کا مطالعہ‘ حدیث کا مطالعہ اور تشریح پڑھنا ان کا روز کا معمول تھا اور فجر کی مجالس ان کے گھر کا معمول تھیں گھر میں بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کا ہوم ورک مکمل کراتے تھے وہ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے وہ جب بھی گھر میں ہوتے تو بچوں (پوتوں‘ نواسوں) کو خود باجماعت نماز پڑھاتے اور خود امامت کیا کرتے تھے اور اپنی بہوئوں کے دوست تھے‘ بلکہ پوتوں اور نواسوں سے ان کی محبت اپنی اولاد سے بھی زیادہ تھی۔ انتقال سے ایک روز قبل انہوں نے اپنی ہمشیرہ کے گھر گزارا‘ اس وقت انہیں نمونیہ کی شکایت ہوچکی تھی بلکہ یہی بیماری ان کے انتقال کا باعث بھی بنی ان کے انتقال پر مسلم دنیا کے ہر عالمی رہنماء نے تعزیت کی‘ ترک رہنماء طیب اردوان نے ذاتی طور پر تعزیت کی‘ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد البدیع‘ ایران کے صدر محمد خاتمی‘ ملائیشیاء کے انور ابراہیم‘ قطر کے ڈاکٹر یوسف قرضاوی‘ میر واعظ عمر فاروق اور افغان رہنماء استاد مزمل سمیت دنیا بھر کے سیکڑوں رہنمائوں نے تعزیتی پیغامات بھیجے وہ ایک فرد تھے مگر پوری امت کا درد رکھتے تھے ان کے انتقال پر پوری مسلم دنیا سوگوار تھی۔ ان کے انتقال پر غیر مسلم بھی سوگوار تھے۔
قاضی حسین احمد نے اپنی زندگی میں ہی ادارۂ فکروعمل کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جسے ’’قاضی کا چائے خانہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا جس کا مقصد قومی سوچ کی تشکیل ہے اس ادارے کے زیراہتمام کئی قومی اور بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کو ایک عوامی مگر دینی اقدار کی بنیاد پر مقبول جماعت بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ جماعت اسلامی کو اخلاقی معیار کی ایک قوت بننا چاہیے اور سیاسی کامیابی اصل ہدف نہیں ہونا چاہیے ’’ظالمو قاضی آرہا ہے‘‘ جیسا کوئی رہنماء ان کے بعد جماعت اسلامی میں نظر نہیں آرہا جو قومی وحدت اور مسلک کی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے قاضی حسین احمد کے مشن کو آگے بڑھائے قاضی حسین احمد اسلامی نظریے، عقیدے اور جہد مسلسل کا نام تھے۔ ظلم کے خلاف ایک مضبوط اور زور دار آواز اور مظلوموں کا ساتھ دینے والے اور ان کے لیے بے چین رہنے والی شخصیت تھے۔ میرا زیادہ واسطہ تعلق قاضی حسین احمد سے رہا ہے ان کی جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے وہ ملک کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرکے ایک فلاحی اسلامی ریاست کا مرکز وفاق اور شریعت کا نفاذ چاہتے تھے ان کا ایجنڈا تھا کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ اور دیگر اکابرین کے وژن کے مطابق اخلاقی روحانی تربیت کریں وہ سیاسی طور پر جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی جماعت بنانا چاہتے تھے اور عوام کی رائے، قوت اور رضا مندی سے اقتدار میں آنا چاہتے تھے اس وقت جو حالات مصر اور بنگلا دیش میں بنے ہوئے ہیں اگر قاضی حسین احمد آج حیات ہوتے تو یہاں کے حالات بھی مختلف ہوتے قاضی حسین احمد عالمی سطح کے تسلیم شدہ جرأت مند راہنما تھے جماعت اسلامی سے باہر بھی لوگ ان سے متاثر ہوئے اور ان کی قیادت کو تسلیم کرتے تھے باہر کی دنیا قاضی حسین احمد کی عزت و احترام کو اپنا وقار تصور کرتی تھی قاضی حسین احمد کی کوششوںکی وجہ سے مسالک میں باہمی احترام پر اتفاق پیدا ہوا تھا۔
قاضی حسین احمد زندگی بھر متحرک رہے کوئی بھی سیاسی تحریک ان کے بغیر ادھوری ہوتی تھی‘ پاکستان قومی اتحاد کو چھوڑ کر‘ اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر متحدہ مجلس عمل کو انہوں نے اپنی عملی جدوجہد سے تشکیل دیا اور سیاسی اہداف حاصل کیے اور ان سیاسی ہنگاموں کے حوالے سے انہیں یقین ہوتا تھا کہ اہداف ضرور حاصل ہوں گے ان کا ہر لمحہ، ہر سانس پاکستان اور اسلام کی محبت کے لیے تھا۔ محروم طبقات کو تقویت دینے کے لیے اپنا ہر لمحہ صرف کرتے تھے وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے اقلیتوں کے بھی ترجمان بن گئے تھے قاضی حسین احمد کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ وہ اُمت مسلمہ کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر تھے۔ وہ بلند نگاہ، دلنواز سخن اور پرسوز جان رکھتے تھے۔ وہ اتحادِ اُمت کے حقیقی معنوں میں علمبردار تھے قاضی حسین احمد ظلم کے خلاف ایک توانا آواز تھے۔ ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ سے مظلوموں کی ڈھارس بندھتی تھی آج کوئی نہیں جس کی طرف اس طرح اُمید کی نگاہ سے دیکھا جائے ان کے انقلابی آفاقی نظریات کے مطابق استیصال سے پاک معاشرے اور چہروں کے بجائے نظام کی تبدیلی تک جہد مسلسل کا عزم جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ عوام ہمارا ساتھ دیں تو ہم عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کریں گے۔ امت مسلمہ اور پاکستان سے محبت ان خون میں شامل ہے وہ پاکستان کو ماڈل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے کشمیرکی آزادی کی تحریک کے وہ ایک نہایت بہادر اور نڈر سپاہی تھے مذہب و مسلک اور علاقائی تعصبات سے پاک پاکستان بنانا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ پنجاب، پٹھان، سرائیکی، سندھی بلوچی اور اردو بولنے والوں میں تقسیم ہوکر اپنا قومی تشخص کھوتے جارہے ہیں۔ انہی تعصبات کی بنیاد پر آج دشمن کے ایجنڈے کو پورا کرنے
والوں نے فرقہ وارانہ اور قومیت کے نام پر دہشت گرد تنظیموںکی تشکیل کی جس کے لیے ہر فرد اپنا کردار ادا کرے اور دوسروں پر ملبہ پھینکنے کے بجائے خود تعمیر وطن کرے۔