امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے قاسم سلیمانی کو مارنے کا فیصلہ جنگ روکنے کے لیے کیا۔ واضح رہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافہ گزشتہ ماہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کی جانب سے ایک مبینہ حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر کو عراق میں قتل کرنے کے ردعمل میں کتائب حزب اللہ کے خلاف امریکی فضائی حملوںکے بعد بغداد میں امریکی سفارتخانے کے باہر پرتشدد مظاہروں اور مظاہرین کا امریکی سفارتخانے میں داخلے کے بعد ہوا جس کا الزام امریکا نے ایران پر عائد کیا ہے۔ امریکا نے بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے جس غیر ذمے داری سے قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا ہے اس پر ایران کا ردعمل نہ صرف توقع کے عین مطابق ہے بلکہ یہاں ہمیں ایران کی اعلیٰ سطح پر ان دھمکیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جن میں ایران نے سلیمانی کے قتل کے بدلے امریکا کے 32اہداف کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے جہاں خلیج فارس میں مزید تین ہزار امریکی افواج روانہ کردی ہیں وہاں انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے خطے میں امریکی مفادات کے خلاف کوئی مہم جوئی کی تو امریکا پہلے ہی ایران کے 52مقامات کو نشانے پر لے چکا ہے جن پر حملوں میں دیر نہیں لگائی جائے گی۔ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ایک غیر متوقع پہلو عراق کاپہلی دفعہ کھل کر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سخت لب ولہجہ اور موقف اپنانا ہے جس میں اگر ایک طرف عراقی حکومت نے امریکی کارروائی کو اپنی سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور ملک کے وقار پر کھلا حملہ قراردیا ہے تو دوسری جانب عراقی پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کر کے بھی سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
عراقی شیعہ رہنما اور مہدی ملیشیا کے سربراہ مقتدیٰ الصدر نے کہا ہے کہ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانا جہاد کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے لیکن یہ ہمارے عزم کو کمزور نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو عراق کی حفاظت کے لیے تیار رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس تازہ صورتحال پر خطے کے اہم ممالک ترکی، قطر، سعودی عرب اور مصر کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ اسرائیل نے اس حملے کی کھلی حمایت کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح اعلان کیا ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانا دنیا بھر میں پھیلے تمام جنگجوؤں کا فرض ہے۔ ان کے اس بیان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سارے خطے میں پھیلے ہوئے ایرانی حمایت یافتہ گروپ درد کی اس گھڑی میں نہ صرف ایران کے ساتھ ہیں بلکہ موقع ملنے پر یہ قوتیں ایران کا ساتھ دینے اور اس ضمن میں ہر قیمت ادا کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گی۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ امریکا نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد تو خطے اور اس سے باہر کے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا ہے لیکن حملے سے قبل برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب جیسے قریبی دوست ممالک کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی شاید یہی وجہ کہ برطانوی دفترِ خارجہ نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ سے قاسم سلیمانی کی سربراہی میں ایرانی القدس فورس کی جانب سے جارحیت کے خطرے کو مدِ نظر رکھا ہے۔ ان کی ہلاکت کے بعد ہم تمام فریقوں کو کشیدگی ختم کرنے کا مشورہ دیں گے کیونکہ یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ یہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ مناسب ہوگا کہ خود امریکا کے اندر بھی اس حملے اور اس کے ممکنہ ردعمل کے حوالے سے امریکی سیاستدانوں اور عوام میں یکسوئی نہیں ہے بلکہ اس حملے کو غیر ضروری اور مشرق وسطیٰ کے گمبھیر حالات کے لیے تباہ کن قرار دیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں برنی سینڈرز، الزبتھ وارن اور جوبائیڈن کی جانب سے اس حملہ پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ حملہ ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں تباہ کن جنگ کے قریب لے جائے گا جس سے ان گنت جانوں اور کھربوں ڈالرز کا زیاں ہو سکتا ہے۔
ایران امریکا بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جنرل سلیمانی نہ صرف ایران اور خطے میں ایرانی مفادات کے لیے کام کرنے والی عسکری تنظیموں میں کافی مقبول تھے بلکہ ان کا یوں اچانک نشانہ بنایا جانا بین الاقوامی سطح پر موجود ایران کی انقلابی ساکھ کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے لہٰذا قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینا جہاں ایران کے لیے اپنے انقلاب کی حفاظت اور خطے میں پھیلے ہوئے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری تصور کیا جارہا ہے وہاں امریکا اور اس کے مقامی اتحادیوں کو مستقبل میں ایرانی مفادات کے خلاف کسی ممکنہ مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے بھی ایران کی جوابی کارروائی کو ناگزیر قرار دیا جارہا ہے اس لیے بعض غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا اور ایران حالیہ کشیدگی کے باعث جنگ کی صورت میں آمنے سامنے آتے ہیں تو یہ نہ صرف امریکا اور ایران بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک خطر ناک صورتحال ہوگی جس سے بچنے کے لیے تمام فریقین کو بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔