معاشی استحکام

403

وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اقتصادی ٹیم کے ذمے داران مسلسل بِشارت دے رہے ہیں کہ وطنِ عزیز معاشی بحران سے نکل آیا ہے اور استحکام کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’’مُوڈیز‘‘ نے حال ہی میں اپنے تجزیے میں پاکستانی معیشت کو منفی سے نکال کر مستحکم درجے میں ظاہر کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ادارہ قرض لینے والے اداروں یا ملکوں کے بارے میں اُن کی قرض واپسی کی استعداد کے بارے میں تجزیے شائع کرتا ہے تاکہ قرض دینے والوں کو رہنمائی مل سکے۔ اسی طرح عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی طرف سے بھی کچھ مثبت رپورٹیں آئی ہیں۔ آئی ایم ایف کا ادارہ بھی کسی ملک کو اس درجے میں ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا کہ ناامیدی پیدا ہوجائے، کیونکہ یہ آئی ایم ایف کی ناکامی کا مظہر ہوتا ہے اوراس کے اثرات خود اس کے لیے بھی مثبت نہیں ہوتے، بلکہ اس میں اُس کی اپنی ساکھ بھی مجروح ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ تاثر یہی دیتے ہیں کہ یہ ادارہ معاشی اعتبار سے تنزّل کی طرف جانے والے ملکوں کو سہارا دیتا ہے اور ان کی معیشت کو بحالی کی طرف لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے قرض کے لیے کڑی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ اس کے قرض کی واپسی کے امکانات بہتر ہوں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو تین سال کے لیے جو چھ ارب ڈالرکی امداد منظور کی ہے، اس کی بابت بھی یہی کہا جارہا ہے کہ اس کا دو تہائی حصہ اسی عرصے میں آئی ایم ایف کی واجب الادا اقساط مع سود کی صورت میں اُس کو واپس چلا جائے گا۔
سو ہمارے وزیرِ اعظم اور مشیرِ خزانہ قوم کو یقین دلارہے ہیںکہ 2020 قومی معیشت کی اُٹھان کا سال ہے، لہٰذا اب ہم قوم کو فیض رسانی اور سہولتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ ان کے بقول اپوزیشن اسی لیے گھبراہٹ کا شکار ہے کہ معاشی استحکام حکومت کو مزید استحکام بخشے گا۔ حکومت کے بعض اقدامات کی تحسین تاجر اور صنعت کار بھی کر رہے ہیں، کسی حد تک پاکستانی کرنسی روپے کی قدر میں بھی ٹھیرائو آگیا ہے۔ نیز بتایا جارہا ہے کہ ہم کرنٹ اکائونٹ کے خسارے سے نکل آئے ہیں، زرِ مبادلہ کے حوالے سے توازنِ ادائیگی خسارے سے نکل کر مُثبت حدود میں داخل ہوگیا ہے، وغیرہ۔ اعداد وشمار کی جو جادوگری معاشی اشاریوں میں کارفرما ہوتی ہیں، اس کے اعتبار سے بظاہر یہ خبریں اچھی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ حقائق ایسے ہی ہوں اور نتائج بھی حکومت کی خواہشات اور دعووں کے مطابق برآمد ہوں، کیونکہ اگر حکومت ان وعدوں اور دعووں میں سرخرو ہوتی ہے تو اس میں قوم وملک کی فلاح ہے۔ لیکن ماہرین کے خدشات بدستور قائم ہیں، ان کے نزدیک نہ معاشی استحکام کا کوئی فیض اب تک عوام کو مل سکا، نہ اشیائے صَرف کی گرانی کا گراف نیچے آرہا ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی نوید سنائی جارہی ہے، بلکہ مہنگائی کے بارے میں مزید تنبیہات آرہی ہیں۔ حالیہ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت پٹرول اور ڈیزل پر غیر متناسب ٹیکس لے رہی ہے، ٹیکس کی ایسی ہی وصولیابیوں کو بالواسطہ ٹیکس سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا بوجھ براہِ راسست عام صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے اور اس میں غیر معمولی دولت مند اور انتہائی نادار میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، یہی صورتِ حال گیس، بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی بلز کی ہے۔ جب تک بجلی کے ’’لائن لاسز‘‘ پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاتا، اس کا بوجھ عام صارفین پر پڑتا رہے گا۔ لائن لاسز سے مراد یہ ہے کہ پاور جنریشن یونٹ جتنی بجلی پیدا کر کے سسٹم یعنی نیشنل گرڈ میں ڈالتے ہیں جہاں سے صارفین کے لیے بجلی کی ترسیل شروع ہوتی ہے، اس میں اور بجلی کے بلوں میں کافی فرق ہوتا ہے۔ ایک ماہرِ معیشت بتارہے تھے کہ بحیثیت ِ مجموعی اب بھی ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز کی شرح بیس فی صد ہے، جو ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اب ترسیل اور بلنگ میں جو تفاوت ہے، یہ بجلی کدھر جاتی ہے، اس کا پتا نہیں لگایا جارہا کہ بجلی چوری کہاں کہاں ہورہی ہے اور اس پر قابو پانے کی صورتیں کیا ہیں۔
حکومت یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ درآمدی بِل کم ہوگیا ہے، اگر یہ کمی اشیائے ضرورت اور اشیائے تعیّش میں ہو تو قابلِ تحسین ہے،کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارا صنعتی پہیہ حرکت میں آگیا ہے، ہم اپنے لیے اشیائے ضرورت خود پیدا کرنے لگ گئے ہیں اور تعیّشات کو ہم نے خیر باد کہہ دیا ہے۔ لیکن کیا حقیقت یہی ہے، اس سوال کا مثبت جواب دستیاب نہیں ہے۔ قابلِ فہم بات یہ ہے کہ معاشی اور صنعتی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں، یعنی معیشت کا حُجم پھیلنے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر انتہائی کم ہونے کی وجہ سے بعض صنعتوں پر منفی اثر پڑا ہے، مثلاً: گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانوں کی پروڈکشن ان کی استعداد سے کم ہے، کیونکہ قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے مارکیٹ میں طلب کم ہوگئی ہے، لہٰذا اس صنعت میں اسٹاف کی ڈائون سائزنگ ہورہی ہے، اوقاتِ کار کو کم کیا جارہا ہے، کیونکہ مارکیٹ میں طلب کم ہونے کی وجہ سے ان کے چیسس اور دیگر پرزوں کی درآمد کم ہوگئی ہے اور اس سے یقینا درآمدی بل میں کمی آئی ہوگی۔ اسی طرح بعض صنعتوں میں مندی آنے کی وجہ سے خام مال اورصنعتی مشینری کی درآمد کم ہوگئی ہے، اس کا اثر براہِ راست روزگار کے مواقع اور ملازمتوں کی کمی کی صورت میں مرتب ہورہا ہے۔ صنعتی سرگرمیاں تیز ہونے کی وجہ سے یقینا مشینری، پرزوں اور خام مال کی درآمد کا بِل بڑھ جاتا ہے، لیکن اس سے معیشت کا حجم بھی بڑھتا ہے، روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، نیز کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جو نہیں ہورہا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے محصولات کے مقررہ ہدف میں تین سوارب روپے کی کمی پر اتفاق کرلیا ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کا تجزیہ حقیقت پسندانہ انداز میں کیا جائے تاکہ لوگوں کے سامنے صحیح تصویر آئے، کیونکہ جب معاشی استحکام کی بِشارت دی جارہی ہو اور اس کے مقابل روزگار کے مواقع کم ہورہے ہوں، نیز مہنگائی کی شرح میں کمی کے بجائے آئے روز اس میں اضافہ ہورہا ہو تو پھر لوگوں کا حکومتی دعووں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے، جو قابلِ اطمینان بات نہیں ہے۔
ایک ماہرِ معیشت بتا رہے تھے: ’’شرحِ سود زیادہ ہونے کے سبب بیرونِ ملک سے لوگ دو فی صد کی شرح سے مغربی بینکوں سے ڈالر قرض پر لیتے ہیں اور دس فی صد پر ہمارے بینکوں میں جمع کردیتے ہیں اور کسی معاشی عمل کے بغیر نفع کما کر ڈالر کی صورت میں ہمارے خزانے سے لے جاتے ہیں، اسے وہ ہاٹ منی سے تعبیر کرتے ہیں، سو اگر آنے والے دنوں میں اسٹیٹ بینک شرحِ سود کو کافی حد تک کم کرتا ہے تو یہ لوگ اپنے ڈالر نکال کر لے جائیں گے اور ہمارے زرِ مبادلہ کا توازن پھر غیر متزلزل ہوجائے گا۔ آیا یہ بیانیہ درست ہے، اسٹیٹ بینک کی طرف سے اس کی وضاحت آنی چاہیے، کیونکہ اُن کے بقول ایسے مصنوعی طریقے سے پاکستان میں ڈالر کی آمد ہماری قومی معیشت کے لیے دیرپا نتائج کے اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوگی‘‘، نوٹ: یہاں ایک لبرل ماہر معیشت کا تبصرہ نقل کیا گیا ہے،
اس کا مطلب یہ نہیں کہ سود کو شرعی جواز دیا جارہا ہے، کیونکہ تاحال بحیثیت ِ مجموعی ہمارا نظامِ معیشت سود پر ہی مبنی ہے۔
ایک اور ماہرِ معیشت مشورہ دے رہے تھے: ’’پکڑ دھکڑ اور چور اچکے کا شور وغوغا چھوڑ کر سیاسی استحکام کا ماحول پیدا کیا جائے اور قومی اتفاقِ رائے سے ایک ’’میثاقِ معیشت‘‘ تشکیل دیا جائے، جسے تمام سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ وزیرِ اعظم اگرچہ ایک فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیںاور دعوے یا خواہش کی حد تک یہ قابلِ تحسین بات ہے، لیکن ہم عالمی سرمایہ دارانہ معیشت اور کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہیں اور یہ صورتِ حال ہم پر مسلط ہے، اختیاری نہیں ہے۔ اسلامی نظامِ معیشت کی روح دولت کا عدمِ ارتکاز ہے، اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کی تقسیم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’تاکہ وہ مالِ غنیمت تمہارے مالداروں میں (ہی) گردش نہ کرتا رہے، (الحشر: 7)‘‘۔ اسلام کا قانونِ وراثت بھی در اصل تقسیم دولت کا ایک ذریعہ ہے، اسی لیے تقسیم وراثت کو اختیاری نہیں رکھا بلکہ لازمی قرار دیا ہے، صدقات وخیرات کی ترغیب اور اسراف وتبذیر کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میں مومنوں سے اُن کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں، سو مومنوں میں سے جو اپنے ذمے قرض چھوڑ کر وفات پائے تو اس کی ادائی میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑ کر جائے، وہ اس کے وارثوں کا ہے، (بخاری)‘‘۔
اس کے برعکس سرمایہ دارانہ معیشت کی روح دولت کی مساویانہ یا منصفانہ تقسیم نہیں ہے، بلکہ ارتکازِ دولت ہے، کہا جاتا ہے کہ دنیا کے مالی وسائل کا اسّی فی صد حصہ پانچ سو بڑے کارپوریٹ اداروں کے پاس ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معیشت کی ماہیت میں استحصال کی روح کس قدرکارفرما ہوتی ہے، اس میں انسانیت کے لیے رحم کا جذبہ نہیں ہوتا۔ امریکا جیسے ملک میں یہی طبقہ صدر اور کانگریس کے انتخابات میں سرمایہ کاری کرتا ہے اور پھر پورے نظام کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے، موجودہ امریکی صدر ٹرمپ اسی طبقے کے نمائندے ہیں۔
سرمایہ دارانہ معیشت میں حکومت کا کنٹرول ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے، وہ صرف ریگولیٹرکا کردار ادا کرتی ہے، اس میں بھی سرمایہ داروں کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے، کیونکہ حکومت کو اپنا نظام چلانے کے لیے محصولات کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے، عام زبان میں کہہ سکتے ہیں: ’’حکومت کا کچن اسی سے چلتا ہے‘‘۔ اسی سبب نیب کی رسائی سے تاجر اور کاروباری طبقے کو محفوظ رکھنے کے لیے ’’نیب ترمیمی آرڈیننس‘‘ جاری کرنا پڑا، جبکہ اسی ادارے کو سیاست دانوں کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے، چنانچہ سابق چیف جسٹس جنابِ کھوسہ نے کہا تھا: ’’ملک میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے، اس سے نیب کی ساکھ مجروح ہورہی ہے‘‘۔
حال ہی میں جاری کردہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے تاجروں، صنعت کاروں اور بیوروکریٹس کو جو تحفظ دیا گیا ہے، اس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ یہ ادارہ محض سیاسی انتقام کے لیے حکومت کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے، احتساب انتقام میں ڈھل گیا ہے، چیئرمین نیب کو بار بار وضاحتیں کرنی پڑتی ہیں اور یہ قول درست ثابت ہورہا ہے: ’’حکومت کی تردید صدقِ مستور کی نشاندہی کرتی ہے‘‘۔