ـ2019ء خون کے آنسو رُلا گیا

317

پوری دُنیا کے معاملات اس وقت عیسویں کیلنڈر کے مطابق چل رہے ہیں اس لیے ہم مسلمان بھی اسی کے مطابق اپنا حساب کتاب رکھتے ہیں اور اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 2019ء اگرچہ گزر گیا لیکن اس کے مابعد اثرات بدستور جاری ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نیا سال پوری طرح گزرے ہوئے سال کی گرفت میں ہے۔ یہ گرفت اسی وقت ڈھیلی ہوگی جب حالات کا رُخ بدلے گا۔ بظاہر اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ 2019ء اس حال میں اپنے انجام کو پہنچا کہ ہماری آنکھوں سے جوئے خون جاری تھی اب نئے سال کا سورج طلوع ہوا ہے تو بھی آنکھوں سے خون کے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ ہم بحیثیت مسلمان مظلومیت کی انتہا پر ہیں‘ ہمارا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے، ہم ہر جگہ مارے اور کھدیڑے جارہے ہیں، دُنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو کون سی جگہ ایسی ہے جہاں مسلمانوں پر ظلم نہیں ہورہا، جہاں ان کا خون بہایا نہیں جارہا؟ ہم جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں، یہ خطہ اس وقت آتش فشاں بنا ہوا ہے، جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک بھارت نے پورے خطے میں ظلم و دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ وہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کیے بیٹھا تھا لیکن مقبوضہ ریاست کی انفرادی حیثیت برقرار تھی اور بھارت کے آئین میں بھی اسے تسلیم کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق خود ارادی کی حمایت میں ایک نہیں کئی قراردادیں منظور کی تھیں اور کشمیری عوام اِن قرار دادوں کے مطابق اپنے حق کے حصول کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ پاکستان اس تنازع میں نہایت اہم فریق کی حیثیت رکھتا تھا۔ کشمیری عوام ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی طرف دیکھتے اور اس سے عملی مدد کی توقع رکھتے تھے۔ گزشتہ سال سب سے بڑا سانحہ یہ پیش آیا کہ بھارت نے 5 اگست کو ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کردیا اور کشمیری عوام کے احتجاج کو دبانے کے لیے پورے علاقے میں کرفیو لگا کر کشمیری عوام کا رابطہ پوری دُنیا سے منقطع کردیا۔ کشمیری عوام نے اس صورتِ حال میں پاکستان کو مدد کے لیے پکارا۔ بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی نے ایس او ایس کال دی اور پورے عالم اسلام خصوصاً پاکستان سے مدد کی اپیل کی، جواب میں پاکستان کا ردعمل بھی حوصلہ افزا تھا کہ عسکری قیادت نے برملا اعلان کیا کہ ہم آخری گولی، آخری سپاہی اور آخری سانس تک کشمیریوں کا دفاع کریں گے۔ اس اعلان کا مفہوم بہت واضح تھا، اہل کشمیر نے یہی سمجھا کہ پاک فوج ایل او سی کو روندتی ہوئی ان کی مدد کو پہنچے گی اور انہیں بھارت کے پنجے سے چھڑا لے گی۔ سرینگر کی دیواروں پر اس اعلان کے بینرز لگ گئے اور کشمیری نوجوان سینہ تان کر سڑکوں پر آگئے، انہیں پوری اُمید تھی کہ پاک فوج کی کمک ان کے قدموں کو پسپا نہ ہونے دے گی۔ پھر وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے بیان سے اُمید کی لو روشن کردی۔ انہوں نے کسی ابہام کے بغیر کہا کہ ہم کشمیریوں کو بچانے کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اس بیان سے بھی اہل کشمیر کا حوصلہ بڑھا اور انہیں احساس ہوا کہ پاکستان پوری قوت کے ساتھ ان کی پشت پر ہے اور وہ کسی صورت بھی انہیں بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ بھارت مقبوضہ کشمیر کو لاک ڈائون کرکے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا، ان کی عزتیں پامال کرتا رہا، ان کے بچے اغوا کرتا رہا اور ان کے کاروبار اور روزگار کو بند کرکے انہیں بھوکوں مارتا رہا، لیکن نہ پاکستانی حکمرانوں کی حمیّت جاگی نہ دیگر مسلمان ملکوں کے جذبات میں لرزش پیدا ہوئی۔ 2019ء کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کو خون کے آنسو رلاتا ہوا گزر گیا لیکن حالات جوں کے توں برقرار رہے۔ نیا سال طلوع ہوا ہے تو مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون بدستور جاری ہے۔ اہل کشمیر کا پوری دُنیا سے رابطہ کٹا ہوا ہے اور بھارت ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی حکمران اشرافیہ بے حسی کے تالاب میں غوطے لگا رہی ہے اسے اگر کوئی فکر ہے تو یہ کہ بھارت کہیں آزاد کشمیر پر حملہ نہ کردے اور کہیں اس کی بے حسی میں خلل نہ پڑ جائے۔
اہل پاکستان کے لیے سقوطِ کشمیر کا صدمہ کیا کم تھا کہ 2019ء میں بھارت نے شہریت کا مسلم کش قانون منظور کرکے ان کے دلوں پر ایک اور کچوکا لگادیا۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان صدیوں سے وہاں آباد چلے آرہے ہیں، وہ غیر منقسم ہندوستان میں بھی وہاں کے مقامی باشندے تھے جب ہندوستان تقسیم ہوا اور اس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان وجود میں آئے تو اگرچہ بہت سے مسلمان ہجرت کرکے مسلم اکثریت والے ملک پاکستان آگئے لیکن بھارت میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے آبائی علاقوں ہی میں رہنا پسند کیا اور بھارت کے وفادار شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگے۔ تقسیم کے فوراً بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ وہ اپنی سرزمین پر آباد اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے اور انہیں برابر کے شہری کا درجہ دیں گے۔ اس معاہدے کو ’’لیاقت نہرو پیکٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدے کی پورے اخلاص سے پابندی کی اور پاکستان میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کو کبھی امتیازی سلوک اور مذہبی تعصب کی شکایت نہیں ہوئی۔ ان کے مندر، گرجے، گوردوارے اور دیگر عبادت خانے پہلے کی طرح آباد ہیں۔ وہ ہندو ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی، مسلم اکثریت کی طرح برابر کے شہری حقوق رکھتے ہیں اور اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ بھارت میں مسلمانوں کو ابتدا ہی سے امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے، انہیں کبھی برابر کے شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ تقسیم کے بعد سے اب تک وہاں پچاس ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں جن میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے تاہم مسلمانوں نے یہ صدمات صبر اور حوصلے سے برداشت کیے ہیں لیکن نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت انہیں صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ شہریت کا متنازع قانون مودی حکومت کے اسی عزم کی نشاندہی کررہا ہے۔ اِس وقت بھارت میں مسلمانوں کی تعداد بائیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ متنازع قانون کے تحت انہیں اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنا ہوگی، اگر نہ ثابت کرسکے تو انہیں ’’گھس پیٹھیے‘‘ قرار دے کر حراستی کیمپوں میں منتقل کردیا جائے گا۔ بعدازاں ملک بدری ان کا مقدر ہوگی۔ جو مسلمان حراستی کیمپوں میں منتقل کیے جائیں گے ان کے کاروبار اور جائداد پر ان کا حق ساقط ہوجائے گا اور ان کی بھارتی شہریت منسوخ تصور ہوگی۔ اس کالے قانون کے خلاف پورے بھارت میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں، اس ردعمل میں مسلمانوں کے علاوہ باشعور ہندو، سکھ اور عیسائی بھی شریک ہیں لیکن بھارتی پولیس صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ کررہی ہے اور انہیں براہِ راست گولی کا نشانہ بنارہی ہے، پولیس افسران نے برملا کہا ہے کہ انہیں صرف مسلمانوں کو مارنے کا حکم ہے، جب کہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور مار دھاڑ میں مصروف ہیں۔ ’’لیاقت نہرو پیکٹ‘‘ کے تحت پاکستان اس کالے قانون کے خلاف احتجاج اور مسلمان اقلیت کے تحفظ کا مطالبہ کرسکتا تھا لیکن حکومت نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں وہ لوگ خود نمٹ لیں گے۔ حالاں کہ یہ صرف بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، پاکستان کا مسئلہ بھی ہے کیوں کہ یہاں لاکھوں منقسم خاندان موجود ہیں جو تقسیم کے وقت ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور بھارت میں رہ جانے والے اپنے اعزہ و اقارب سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت بھی بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں اُٹھا سکتا ہے اور عالمی دبائو کے ذریعے بھارت کو مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک سے باز رکھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے مہاتیر محمد نے نہایت مضبوط موقف اختیار کیا ہے، انہوں نے بھارت کو خبر دار کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ ترک نہ کیا گیا تو ملائیشیا میں موجود لاکھوں بھارتی شہریوں کو ملک سے نکال دیا جائے گا، اگر او آئی سی کے تمام رکن ممالک بھی بھارت کو یہ وارننگ دیں تو بھارت کی عقل ٹھکانے آسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
مسلمان کوئی لاوارث اُمت نہیں ہیں لیکن بزدل، نالائق، بے غیرت اور مفاد پرست مسلم حکمرانوں نے انہیں پوری دنیا میں لاوارث بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اسی وقت بدلے گی جب اِن حکمرانوں کا چلن تبدیل ہوگا، ان کی غیرت جاگے گی اور انہیں اپنی متحدہ قوت کا احساس ہوگا۔ بصورت دیگر 2019ء کا المیہ جاری رہے گا۔