ملکی مفاد میں !

403

آرمی ایکٹ، جسے فوجی بل بھی کہا جارہا ہے، گزشتہ منگل کو بغیر کسی بحث کے قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا اور اسی دن عجلت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں بھی منظور ہوگیا چنانچہ بدھ کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا۔ قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور پختون تحفظ موومنٹ کے ارکان نے ہلکا سا احتجاج کیا اور پھر واک آئوٹ کردیا۔ واک آئوٹ احتجاج کا ایک طریقہ تو ہے لیکن اس کا مطلب دوسروں کو واک اوور دینا بھی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو سروسز ایکٹ میں ترمیم کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کررہی تھیں اب بڑھ چڑھ کر حکومت کا ساتھ دیتی ہوئی نظر آئیں۔ اس سے شیخ رشید کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی کہ فوج کا معاملہ ہے، تمام سیاسی جماعتیں دم دبا کر دوڑی چلی آئیں گی۔ بڑی سمجھی جانے والی جماعتوں کی طرف سے ایسا ہی ہوا ہے۔ کسی نے ترمیم بھی پیش نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کچھ سفارشات پیش کی گئی تھیں لیکن وزیر دفاع پرویز خٹک کی درخواست پر فوری طور پر واپس لے لی گئیں اور پیپلز پارٹی کی طرف سے نوید قمر نے کہا کہ ملکی صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا۔ کیا دو ایک دن ہی میں ملکی صورت حال تبدیل ہوگئی تھی؟ یہ معاملہ تو مہینوں سے چل رہا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر فوج کے سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے چھ ماہ میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ پارلیمنٹ سے فیصلہ ہونے کے باوجود حکومت نے عدالت عظمیٰ کے مذکورہ حکم پر نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جو واپس نہ لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا بل خاصا مبہم اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق تینوں افواج کے سربراہوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 64 سال کر دی گئی۔ اس کے علاوہ بھی وزیر اعظم آرمی چیف کو مزید توسیع دے سکیں گے جس کو کبھی چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم جب چاہیں گے کسی کو فارغ کرسکیں گے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہوگا؟ نواز شریف کی منتخب حکومت نے یہ کام کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ حکمران طبقے کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔ بہت اچھا کیا لیکن ملکی اور قومی مفاد کا تعین تو آج تک نہیں ہوسکا اور ہر حکمران اس کی من مانی تشریح کرتا ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے ’’ ملکی مفاد‘‘ کو مقدم رکھا انہیں اس کے بدلے میں کسی رعایت کی امید تو ضرور ہوگی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادتیں نیب کے شکنجے میں ہیں چنانچہ شکنجہ نرم ہوسکتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ دبائو میں آ کر آج اکٹھے ہونے والے کل پھر دست و گریباں ہوں گے، طاقت ور اسٹیبلشمنٹ جسے چاہتی ہے اقتدار میں لاتی ہے اور جسے چاہے نکال دیتی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں کل تک تو عمرانی حکومت کو سلیکٹڈ کہتی رہی ہیں اب اسی کشتی میں قدم رکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مجبوری کے سودے ہیں۔ بہرحال یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ولے بخیر گزشت‘‘۔ کاش حکومت اور سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل پر بھی ایسے ہی اتفاق اور پھرتی کا مظاہرہ کرتیں۔