نیب سے عدالت عظمیٰ کا سوال

323

عدالت عظمیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ نیب پہلے ملزم کو گرفتار کرتا ہے اس کے بعد وہ ثبوت ڈھونڈنا شروع کرتا ہے آخر تحقیقات پہلے مکمل کیوں نہیں کی جاتی۔ عدالت عظمیٰ کے جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے ہیں کہ کسی کو پھانسی لگانی ہے ہے تو لگا دیں سزا دینی ہے تو دے دیں۔ نیب کے وکیل نے اس کی یہ دلیل دی ہے کہ گرفتاری ریکارڈ ٹیمپرنگ کے خدشے کے پیش نظر کی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سارے ملزمان کی گرفتاری کے باوجود ریکارڈ ٹیمپرنگ ہو جاتی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ جو من پسند یا کسی کو پسند ہو اس کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ ہوتی ہے جیسا کہ پہلے سے گرفتار شرجیل میمن کے پاس سے برآمد ہونے والے مشروب کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے شراب قرار دیا تھا۔ یقینا چیف جسٹس شراب اور زیتون کے تیل کی بو کا فرق جانتے ہوں گے۔ لیکن آج تک ریکارڈ میں وہ شراب کے طور پر شامل نہیں ہوسکا۔ اسی طرح وزیر امور کشمیر بننے سے قبل جن صاحب کے پاس سے پولیس نے بوتلوں میں موجود نشہ آور مشروب برآمد کیا تھا وہ ان کی گرفتاری کے بعد ٹیمپر ہو کر شہد بن گیا۔ اسی طرح رانا ثناء اللہ تو گرفتار تھے ان کے بریف کیس کے وزن کا معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا منشیات تھیں یا نہیں تھیںیہ سب رانا ثناء اللہ کی قید کے دوران ٹیمپر ہو جانا چاہیے تھا لیکن اب تک اے این ایف یہ ثابت نہیں کرسکا کہ بریف کیس میں کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے نیب کی کارکردگی کے بارے میں جو سوال اٹھایا ہے وہ محض ایک کیس کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ نیب کی یہ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ اس قسم کا سوال سندھ ہائی کورٹ میں بھی اٹھایا گیا ہے کہ ترمیم آرڈیننس کے بعد نیب کتنے روپے کی رقم کی کرپشن پر کارروائی کرسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب وکیل بھی اس حوالے سے لاعلم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کی خبر ہے کہ 50کروڑتک کی رقم تک کرپشن پر نیب کارروائی کرسکتا ہے۔ اگر اس ادارے کے قیام اور اس کے مقاصد اور ضرورت پر بات کی جائے یہ تو 1999ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس بیس سالہ عرصے میں نیب نے پلی بارگین کا نادر طریقہ وضع کیا جس کے بعد درجنوں کرپٹ افراد نے لوٹی ہوئی رقم کے دس فیصد کے برابر رقم ادا کی اور باعزت بری ہو کر آزاد ہوگئے۔ اس کے بعد کیا ہوا قوم اس سے یہ پوچھ نہیں سکی کہ کتنے لوگوں نے دس فیصد رقم دینے کے بعد لوٹی ہوئی بقیہ رقم ادا کردی۔ اور جو ادا نہ کرسکے ان کے ریکارڈ میں کس نے ٹیمپرنگ کی۔ عدالت عظمیٰ کا سوال بالکل بجا ہے کہ نیب پہلے گرفتاری کرتا ہے پھر گواہوں اور ثبوتوں کی تلاش کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا خطرہ ہوتا ہے یہ کوئی معقول دلیل نہیں کیوں کہ نیب کا ریکارڈ اس حوالے سے اچھا نہیں ہے۔ جب سے نیب ترمیمی آرڈیننس جاری ہوا ہے اس کے بعد سے تو نیب کو یہ بہانہ ہاتھ آگیا ہے کہ ہمارے اختیارات کم کردیے گئے ہیں۔ حکومت اور نیب دونوں یہ بتائیں کہ نیب کے زیادہ اختیارات سے اسے کیا نقصان تھا اور نیب کوزیادہ اختیارات سے کیا فائدہ تھا اور اس نے کیا کارنامے انجام دیے تھے۔ نیب کے زیادہ اختیارات سے قوم کو کیا فائدہ تھا۔ اور حکومت بتائے کہ اختیارات کم کر کے اس نے قوم کو کیا فائدے پہنچائے۔