ٹیلی فون کہانی، پائول سے پومپیو تک

393

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر روسی وزیر خارجہ اور افغان صدر سمیت خطے کے کئی سول حکمرانوں سے بات کرتے ہوئے جب پاکستان کا نمبر ملانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بات کی۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کی فوجی قیادت کے ساتھ براہ راست بات کرنے کا مشکوک سا فیصلہ کیا اور پھر ٹویٹر کے ذریعے اس فیصلے کا اعلان بھی کر دیا کہ انہوں نے پاکستان کی افواج کے سربراہ کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات کی۔ مائیک پومپیو کی اس ٹیلی فون کال کو نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے آنے والی اس ٹیلی فون کال کے مترادف سمجھا گیا جس میں امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’’آپ ثابت کریں ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ‘‘۔ نیم شب کو آنے والی اس کال پر پاکستان کے فوجی حکمران کا فوری ردعمل تھا کہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔ اس کے بعد پاکستان نے اپنی زمین اور ائر بیس امریکا کے لیے کھول دیے تھے اور امریکی جہازوں نے یہاں سے اُڑانیں بھر کر افغانستان پر بمباری کا آغاز کیا تھا اور اس بمباری کا ہدف افغانستان کی وہ حکومت تھی جسے دنیا میں تین ہی ملکوں نے جائز اور قانونی تسلیم کر رکھا تھا جن میں ایک ہم خود تھے۔ اس کے بعد پاکستان امریکا کا اتحادی قرار پایا مگر یہ فیصلہ پاکستان کے لیے بلائوں کا صندوق کھل جانے کے مترادف قرار پایا۔ دہشت گردی کا ایک سیلابی ریلا پاکستان کی حدود میں داخل ہوگیا۔ پاکستان کے وہ اسٹرٹیجک اثاثے جن کی بندوقوں کا رخ بھارت، امریکا یا کسی اور جانب تھا راجا پورس کے ہاتھی بن کر خود ہمی پر چڑھ دوڑے تھے اور اسی ہزار افراد اس ایک ٹیلی فون کال کی نذر ہو گئے۔ بعد میں امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اپنی کتاب میں بہت حیرت انگیز انداز میں اس پر قلم کشائی کی تھی کہ امریکیوں کا خیال تھا کہ اس ٹیلی فون کے جواب میں جنرل مشرف بہت سی شرائط رکھیں گے مشاورت کے لیے وقت مانگیں گے اور یوں انہیں منانے میں مشکل پیش آئے گی مگر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ موقع پر ہی امریکا کا غیر مشروط ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے۔
جنرل مشرف کے فیصلے کے نتیجے میں ملک کے طول عرض میں پھیلنے والے دہشت گردی قوم کو بھگتنا پڑی۔ اب مشرق وسطیٰ میں حالات کا الائو دہکا دیا گیا ہے۔ اس الائو کو ایران کے ایک صف اول کے فوجی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا ایندھن فراہم کر دیا گیا ہے۔ امریکا ہزاروں کلومیٹر دور سے مشرق وسطیٰ میں آکر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ وہ یہاں نئے مشرق وسطیٰ کا ناک نقشہ تراشنے کا خواہش مند ہے اور یہاں آکراپنی سہولت اور مفاد کے مطابق مہروں کی ترتیب بدلنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ کشیدگی کا یہ الائو اس وقت دہکایا گیا ہے جب پاکستان سمیت کئی ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس بات کو مزید اہمیت عراقی وزیر اعظم کے اس انکشاف سے مل رہی ہے جو انہوںنے قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قاسم سلیمانی سعودی قیادت کے لیے ایرانی قیادت کا اہم پیغام لے کر عراق آئے تھے اور حملے کے دوسرے دن ان سے ملاقات طے تھی۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ قاسم سلیمانی کے امریکا کے ہاتھوں عراقی سرزمین پر قتل کے بعد سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے عراقی وزیر اعظم سے ٹیلی فونک بات چیت کی ہے۔ عراقی وزیر اعظم کے اس انکشاف نے خطے میں امریکا کے مقاصد اور منصوبوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ امریکا خطے کے دو اہم مسلمان ملکوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی قسم کے تال میل کا کھلا مخالف ہے اور دونوں کے درمیان مخاصمت کی خلیج کو بڑھانے کا خواہش مند ہے۔ سیال دولت سے مالامال یہ دونوں بااثر مسلمان ملکوں کے لڑ جھگڑ کر بدحال ہونے سے امریکا کا کیا مفاد ہے؟ یہ کوئی راز نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ تیل کے کھیل بھی بڑے رحم ہیں۔ اس صورت حال میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے یہ بات وضاحت کے ساتھ کی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ میجر جنرل آصف غفور نے پومپیو باجوہ گفتگو کے حوالے سے یہ وضاحت بھی کی کہ مائیک پومپیو کو بتایا گیا کہ دونوں طرف سے کشیدگی بڑھانے کے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ظاہر ہے کہ دونوں طرف سے صورت حال پر مشاورت ہوئی ہوگی۔ اس وضاحت کے بعد ان سب لوگوں کو یک گونہ اطمینان ہوا جن کے ذہنوں میں یہ خدشات کلبلا رہے تھے کہ مائیک پومیو کی یہ ٹیلی فون کال نائن الیون کے بعد کولن پاول کی نیم شب کی کال ثابت نہ ہو۔ پاکستان نے کولن پاول کی کال کے بعد بہت سے تلخ تجربات کا سامنا کیا ہے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کال کے بعد پاکستان آگ اور خون کے ایک سمندر میں پھنس کر رہ گیا۔ یہ تجربہ اب پاکستان کی اجتماعی عوامی اور ریاستی دانش کا حصہ بن کر رہ گیا کہ اب کسی کی آگ میں کودنا نہیں چاہیے۔ پرائی آگ کے شعلوں میں کودنے کا مطلب اپنے گھر کو شعلوں کی راہ دکھانا ہے۔ افغانستان میں امریکا کی دوبار معاونت نے پاکستانیوں کے اجتماعی شعور میں یہ سبق گوندھ کر رکھ دیا ہے کہ کسی اور کی جنگ کا ڈھول اپنے گلے میں لٹکانا گھاٹے کے سودے اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔