نئے سال کا کارڈ

374

وقاص احمد
وزیرِ اعظم نے وزیر اطلاعات کی توسط سے اعلان کیا ہے کہ وہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا، گھی، چینی اور دال پر عوام کو تقریباً چھے ارب روپے کی سبسڈی دیں گے۔ اس رعایت کے حقیقی مستحقین کی جانچ کے لیے حکومت ان کو کارڈ جاری کرے گی۔ گویا ہیلتھ کارڈ، انکم سپورٹ کارڈ کے بعد یہ ایک نیا کارڈ ہوگا۔ یہ کارڈ مستحقین کو ملے نہ ملے، کارڈ اور اس پر سافٹ ویئر سسٹم بنانے والوں کی تو موجیں لگ گئی ہیں۔ ان کارڈوں کی حفاظت کے لیے اب لوگوں کو بھی کافی اقدامات کرنے ہوںگے۔ خیر! اس بات سے انکار نہیں جب حکومت کو مہنگائی اور روزگار کی عمومی صورتحال ٹھیک کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہوں تو پسے ہوئے طبقات کی مدد اور ان کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے خصوصی اقدامات کرنا مستحسن عمل ہے۔ لیکن جس طرح صحت کارڈ کا پھیلائو پنجاب اور خیبر پختون خوا ہی میں رہا ہے اس یوٹیلیٹی سپورٹ کارڈ کے بھی فوائد پورے ملک کے مستحقین کے بجائے وہی صوبے اٹھائیں گے جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔
سندھ اور خاص طور پر اہل کراچی کو اٹھارہویں ترمیم کے نقصانات کا احساس جس شدت سے تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کی وجہ سے ہوا ہے شاید اتنا پہلے نہیں تھا۔ عمران خان نے پی پی پی اور سندھ حکومت کے خلاف جو نفرت بھرے جذبات پالے ہوئے ہیں سندھ حکومت اس کا بھرپور انتقام کراچی سے لے رہی ہے۔ صوبوں اور ان میں آبادی کی تقسیم کا سیاسی طور پر اثر کچھ اس طرح ہوگیا یا کردیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت لازماً یہ سوچتی ہوگی کہ اگر کے پی کے پورا اور پنجاب آدھے سے زیادہ بھی قابو میں آ گیا تو اگلی وفاقی حکومت پھر ہماری۔ پی پی پی سوچتی ہے کہ کراچی جائے بھاڑ میں اگر دیہی سندھ بھی ہمیں بھٹو کے نام پر ووٹ دیتا ہے تو پورا سندھ ہمارا۔ تبھی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کراچی کے بارے میں خود اپنی طرف سے یا سندھ حکومت کے ساتھ کسی سنجیدہ کوششوں کے بجائے صرف بہلاوے دے کر وقت گزار رہی ہے۔ وزیر اعظم کو کراچی میں اپنا ووٹ بینک بچانے کے لیے جلد اقدامات کرنے ہوں گے۔ آپ کے بلند بانگ دعووں اور زمینی نتائج میں جو سمندر حائل ہے وہ آپ کی تقریروں سے نہیں عملی اقدامات سے کم ہوگا۔
وزیر اطلاعات نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت پبلک سیکٹر ترقیاتی فنڈ میں سے اب تک ستاسی ارب روپے خرچ کر چکی ہے اور اگلے سال سات سو ارب روپے خرچ ہوںگے۔ صوبوں کو جو 900 ارب روپے گئے ہیں یا جائیں گے ان کا حال احوال کیا ہے اللہ ہی جانے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وفاق سات سو ارب روپے اگلے چھے مہینے میں کیسے خرچ کر پائے گا۔ راقم یہی بات عرصے سے کہہ رہا ہے کہ حکومت بڑے ترقیاتی منصوبوں پر اگر کام شروع نہیں کرے گی تو نہ صنعتیں پیداوار بڑھا پائیں گی اور نہ روزگار کے دروازے کھل پائیں گے۔ سبسڈی دینا اچھی بات ہے لیکن ٹیکس دینے والوں کے پیسوں کو دوررس نتائج دینے والے منصوبوں پر خرچ کرنا زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ حکومت فی الفور بار بار گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا بند کرے۔ یہ سبسڈیوں، رعایتو ں اور سپورٹ کا اثر صفر ہوجاتا ہے جب بجلی پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے۔ یہ حکمت عملی کہ متوسط طبقات جن کی ماہانہ آمدنی تیس سے پچاس ساٹھ ہزار تک ہے جو بچوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتے ہیں، پیٹ کاٹ کر ان کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں۔ خودداری اور عزت نفس کی وجہ سے کسی لنگر اور کسی سپورٹ کارڈ کی طرف مائل نہیں ہوتے، ان کی عزت نفس اور کمر کو نہ توڑا جائے۔ ماہرین سے مشورہ کر کے اس خاص مڈل کلاس، باشعور طبقے کا خاص خیال رکھا جائے۔ پاکستان کے شہری علاقے خاص طور پر کراچی اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔
ایک خاص منصوبے پر عمل کے بعد ہی تو بلاول نے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کا لالی پاپ دیا۔ جی! وہ منصوبہ جس کے کامیاب ہونے میں پی ٹی آئی سندھ اور وفاق کی لاپروائی، وعدہ خلافی اور سنگین غفلت کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ نئے چیف جسٹس کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی کے مسائل میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے اگر صوبے کی سطح پر این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کا معاملہ رکھا جائے جس میں سندھ کے شہری علاقوں کے لیے ایک فارمولے کے تحت فنڈز مختص کیے جائیں تو وہ ضرور عدل و انصاف سے اس معاملے کو دیکھیں گے۔ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو بھی پہل کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے لیے ایک قانون پاس کروانا چاہیے جس میں جنوبی پنجاب کے لیے خاص فارمولے کے تحت فنڈز مختص کیے جائیں۔ اس سے جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے وعدوں کی طرف پیش قدمی نظر آئے گی۔ اگر عمران خان صاحب یہ سب بھی نہیں کر سکتے تو پھر عہدہ چھوڑ کر کسی کالج میں انقلابی حکومتوں اور فلاحی ریاستوں کے حکمرانوں کی صلاحیتوں، اہلیتوں اور قابلیتوں پر لیکچرز دیں۔ لیکن اس کے لیے بھی شاید انہیںآدھی پونی تاریخ کی کتابیں نہیں، فہم کے ساتھ مکمل تاریخ پڑھنی پڑے گی۔