نانا کرتے بھی این آر او سے نوازا جارہا ہے

340

محمد اکرم خالد
کون کہتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی کون کہتا ہے کہ نئے پاکستان کی شروعات نہیں ہوئی۔ عمران خان کے اقتدار کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوگیا ہے اقتدار پر براجمان ہونے سے اب تک ہر روز وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ آپ کو گھبرانہ نہیں ہے۔ اس ملک کو لوٹنے والے جیلوں میں ہوںگے، پاکستان کرپشن فری ملک ہوگا غیر جانبدار احتساب کی مثال قائم کی جائے گی، جلد پاکستان ترقی خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا، بے روزگاری کا خاتمہ مہنگائی کا خاتمہ، تعلیم، علاج، انصاف کی بہتر فراہمی ممکن ہوگی۔ امیر غریب کا فرق ختم کیا جارہا ہے، عوامی مسائل کو ہر صورت اہمیت دی جائے گی، پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا دور ہوگا، قومی ادارے آزاد اور مضبوط ہوںگے۔ یہ وہ خواب ہیں جو 22 سال صبح شام دوہرائے گئے تھے جن کے سہارے آج خان صاحب وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر براجمان ہیں۔ یہ اس غریب قوم کے ساتھ کوئی پہلا مذاق نہیں ہے، کوئی پہلا دھوکا نہیں ہے، کوئی نئی اُمید نہیں ہے جس کو سیاستدانوں کی جانب سے توڑا گیا ہو ہر برسر اقتدار آنے والی جماعت قوم کو ایسی بے شمار اُمیدیں دلاتی رہی ہے اور پوری ایمانداری سے ان اُمیدوں پر پانی پھیرتی رہی ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے قانون میں تبدیلی کی گئی جس کے تحت اشرافیہ کو نوازا گیا جس کا اظہار خود ایک تقریب میں وزیر اعظم کی جانب سے کیا گیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ میرے بہت سے بزنس مین دوست نیب سے خوفزدہ تھے مگر ہم نے ان کی سہولت کے لیے نیب کے قانون میں تبدیلی کی ہے اب آپ کو ڈرنے کی ضروت نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ واضح کیا جائے کہ قومی خزانے کو غریب عوام لوٹتے ہیں یا کہ سیاستدان اور اشرافیہ اس ملک کو کرپشن کے دلدل میں دھکیلتے ہیں کیا وزیر اعظم کا یہ بیان اشرافیہ کو این آر او نہیں ہے یہ بھی اس حکومت کی عجیب منطق ہے کہ اقتدار کے شروع دن سے خان صاحب بلند آواز سے کہہ رہے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوںگا سب سے پہلے تو کوئی خان صاحب کو یہ سمجھا دے کہ وہ تنہا این آر او دینے کی اہلیت نہیں رکھتے البتہ اپنے اقتدار میں شراکت داری کے لیے خان صاحب کے پاس این آر او کی سہولت موجود ہے جس سے خان صاحب کا اقتدار مضبوط مستحکم ر ہے سکتا رہ جیسے ق لیگ۔ ایم کیو ایم۔ جی ڈی اے۔ بی این پی یہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں جن کے اراکین پر کرپشن کے الزامات ہیں ان سمیت تحریک انصاف کے اندار بھی ایسے بہت سے افراد ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ غیر منتخب خانہ بدوش افراد جو کابینہ کا حصہ ہیں ان پر کرپشن کے الزامات ہیں ان سب افراد کو خان صاحب اپنے اقتدار کی خاطر این آر او سے نواز چکے ہیں یہ وہ حقیقت ہے جس سے نظر چرائی نہیں جاسکتی۔ اقتدار کی خاطر دیا جانے والا یہ این آر او ہی ہے جس کی وجہ آج احتساب کا عمل متنازع ہوچکا ہے کوئی دو آراء نہیں کہ ڈیڑھ سال سے احتساب صرف اپوزیشن کا ہورہا ہے جس کو سیاسی انتقامی کاروائی سمجھا جارہا ہے۔
کرپشن کے نام پر سیاسی انتقام کی فضا خان صاحب نے خود پیدا کی ہے اگر تحریک انصاف غیر جانبدار احتساب کا آغاز اپنی جماعت کے اندراتحادیوں کے غیر جانبدار شفاف احتساب سے شروعات کی جاتی اس ملک کے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے منصوبے بی آر ٹی پشاور کی شفاف تحقیقات کر کے غیر جانبدار احتساب کا عمل شروع کیا جاسکتا تھا اپوزیشن اور اس قوم کے لیے غیر جانبدار احتساب کی مثال قائم کی جاسکتی تھی مگر افسوس اقتدار کے چھین جانے کے خوف نے اپنی جماعت اپنے اتحادیوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ڈیڑھ سال میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مہنگائی نے غریب عوام کی چیخیں نکل دی ہیں۔ غریب نوجوان بے روزگار ہورہا ہے۔ گیس بجلی کے بحران کے سبب کارخانے بند ہورہے ہیں اور محترم وزیر اعظم اچھے دن آنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال سے سیاستدانوں اشرافیہ کو نوازنے، اداروں میں من پسند افراد کو لگانے، بیوروکریسی کو اپنے لیے استعمال کیے جانے اور محکمہ پولیس کو اپنا سیاسی غلام بنائے جانے پر کام کیا جارہا ہے۔ پریس کانفرنس قومی اسمبلی کے اجلاس اور ٹی وی ٹاک شو میں صرف کرپشن احتساب گرفتاریاں کمیٹیاں اداروں کے درمیان تصادم سیاسی شہرت کے سوا کچھ دیکھنے سنے کو نہیں مل رہا۔
نہ حکومت نظر آتی ہے نہ اپوزیشن ن لیگ اس وقت پاکستان کی سیاست میں قیادت سے محروم ہے اس پارلیمنٹ کا اہم منصب اپوزیشن لیڈر سیاسی منظر نامے سے غائب ہے تو اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی غیر سنجیدہ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے جمہوریت بچائو کے نام پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حکومت اور اپوزیشن کا یہ وہ غیر سنجیدہ رویہ ہے جس نے اس ملک کو ستر برس میں سنگین نقصان پہنچایا ہے اس غریب قوم نے ان مفاد پرست سیاستدانوں سے بڑے بڑے گھروں، اعلی نوکریوں، بہترین ضروریات کا مطالبہ کبھی نہیں کیا ستر برس سے یہ قوم بجلی، گیس، اشیائے ضرورت کی سستی فراہمی بہتر علاج، تعلیم، انصاف کی چھوٹی سی اپیل کرتی آئی ہے جس کو یہ بڑے بڑے حکمران ۷۲ سال میں پورا نہیں کر سکے جس سے ان کی قابلیت اہلیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
احتساب اگر غیر جانبدار شفاف سیاسی انتقام کے بغیر نہیں ہوسکتا تو خدارا اس تماشے کو بند کر دیا جائے اور سب کرپٹ سیاستدانوں کے لیے اس ملک و قوم کی بھلائی میں عام معافی کا اعلان کر دیا جائے خان صاحب ہمت کر کے اس ملک و قوم کی بھلائی میں سب کو این آر او دے ہی دیں اور اگر خان صاحب کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ انصاف ریاست مدینہ کی طرز پر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو پھر مثال قائم کی جائے اور احتساب کا شفاف غیر جانبدار عمل اپنی ذات سے اپنی جماعت میں موجود کرپٹ افراد سے اپنے اتحادیوں سے شروع کیا جائے تاکہ اپوزیشن اور عوام کے پاس کوئی سیاسی انتقام کا جواز باقی نہ رہے۔