عمران خان گھر کی خبر لیں

637

کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی پی ٹی آئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کچھ بھی ہو پی ٹی آئی کے کسی سرکاری ادارے میں کرپشن یا بے قاعدگی کا کوئی الزام نہیں ہے اور ایسا کوئی اسکینڈل نہیں ہے لیکن آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خیبر پختونخوا کے سرکاری محکموں میں 23 ارب 29 کروڑ روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ انکشاف بھی 482.405 ارب روپے میں سے 403.319 ارب روپے کے اخراجات کا آڈٹ کیا گیا ہے۔ اس طرح 856.039 ملین روپے وصول کیے جانے تھے تاہم اس میںسے صرف 276.951 ملین روپے وصول ہوئے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں اس کا سبب کمزور مالی کنٹرول کو قرار دیا گیا ہے اور فنانشل اور اکائونٹنگ افسروں پر زور دیا ہے کہ کمزور مالی کنٹرول کی اصلاح کریں۔ کے پی کے حکومت کے ترجمان نے آسانی کے ساتھ یہ وضاحت کردی ہے کہ کسی محکمے میں کسی قسم کی خوردبرد، بے قاعدگی، فراڈ یا غبن کی کوئی اطلاع ہے نہ ایسا ہوا ہے۔ تاہم آڈٹ رپورٹ تو کچھ اور بتا رہی ہے۔ رپورٹ تو بتا رہی ہے کہ کوئلے کی خریداری کے معاملے میں 1.899 ملین روپے کی مشکوک ادائیگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ تو خورد برد، غبن اور بے قاعدگی کے الزامات سے بھری پڑی ہے۔ سارے پاکستان کو چور کہنے والے اپنے ماتحت حکومت اور اس کے افسران کے اللے تللے جاری رہے۔ سیکرٹری ایڈمنسٹریشن کے دفتر میں بجلی اور گیس کے ہیٹرز موجود ہونے کے باوجود کوئلہ خریدا گیا۔ آڈیٹرز نے 50.287 ملین کی خورد برد کے ثبوت ملنے کا دعوی کیا جبکہ تین کیسز میں 24.671ملین روپے کی زاید ادائیگیاں کی گئیں جبکہ دو کیسز میں 1901.174 ملین روپے کے غیر قانونی اخراجات کیے گئے ہیں۔ اگر پوری رپورٹ پیش کر دی جائے تو سب کو چور کہنے والوں کو کچھ شرم تو آہی جائے گی۔ یہ ساری چوریاں صرف افسران اپنے لیے تو نہیں کررہے ہوں گے۔ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچایا جارہا ہوگا۔ اگر سیاسی قیادت ملوث نہیںہے تو بھی کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی حکومت کی ناک کے نیچے سرکاری افسران قوم کے 23ارب 29کروڑ روپے ہڑپ کر جائیں تو ایسی حکومت کے ہاتھوں میںمرکز کے فنڈز کیوں کر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ کے پی کے تو ایک اعتبار سے پی ٹی آئی کا گھر ہے جہاں سے اس کو قوت ملتی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی بھی بڑی تعداد ہے جبکہ یہاں پی ٹی آئی مسلسل دو ادوار سے حکمران ہے۔ اتنے عرصے میں تو صوبے سے کرپشن ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن زیر نظر رپورٹ تو 2016-17 کی ہے اس قبل کیا ہوتا رہا اور 2017-18 اور 2018-19 میں کیا گل کھلائے گئے ان سب کی آڈٹ رپورٹ بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی کے لیے ضروری ہے کہ ایک یوٹرن لے کر اسلام آباد سے پشاور پہنچ جائیں اور اس کرپشن پر بھی فوری ایکشن لیں۔ ان کا کرپشن اور نیب سے متعلق خطاب یہی تھا کہ جہاں کرپشن ہوگی وہاں نیب ہوگی اور جو کرپشن کرے گا وہ جیل جائے گا۔ وزیر اعظم کو تو پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ کون کون کرپشن میں جیل جانے والا ہے تو یقینا اپنے گھر میں 23ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن پر وہ سخت اقدامات کریں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کے پی کے کا کون سا سرکاری افسر پکڑا جاتا ہے اور کب جیل جاتا ہے۔ اور کیا اسی طرح ہوگا جس طرح مرکز میں اور پنجاب میں ہو رہا ہے۔ شہباز شریف پھر حمزہ شہباز اور پھر دوسرے رشتے دار لپیٹ میں آتے ہیں گویا ایک زنجیر ہے کرپٹ لوگوں کی۔ تو کیا کے پی کے میں کرپشن کرنے والے افسران کسی زنجیر سے تعلق نہیں رکھتے ہوں گے۔ اصل کام اسی زنجیر کو بے نقاب کرنا ہے کیوں کہ اس زنجیر کی کڑیاں کے پی کے سے نکل کر اسلام آباد تک ضرور پہنچتی ہوں گی۔ حکومت پاکستان کو کرپشن کے خلاف جہاد اپنے گھر سے شروع کرنا ہوگا۔