مار گئی مہنگائی

542

قاسم جمال
نئے سال کی آمد کے موقع پر جب پوری دنیا میں عوام خوشیاں منا رہے تھے اور نوجوان اور منچلے آتش بازی و پٹاخوںکے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ ایسے میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے عوام پر پٹرول بم کا دھماکا کر دیا۔ پٹرول کی قیمت 2روپے 61پیسے، مٹی کا تیل 3روپے 10پیسے، لائٹ ڈیزل 2روپے 8پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 1روپے 16پیسے کا اضافہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹروں نے فوری طور پر کرائے میں اضافہ کر دیا۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک نے کراچی میں فی یونٹ بجلی کی قیمت 18روپے مقرر کر دی جو پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جب ڈی چوک پر احتجاجی دھرنا دے رہے تھے (اس وقت بجلی کی قیمت فی یونٹ 8روپے تھی) تو بجلی کے بل جلائے اور عوام سے مہنگی بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی تاکید فرمائی۔ آج جب ملک میں گیس مہنگی ہے، ایل پی جی مہنگی، بجلی مہنگی، ٹرانسپورٹ کے کرائے عوام کی دسترس سے باہر ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے سال کے آغاز ہی سے یوٹیلیٹی اسٹور میں گھی، کوکنگ آئل ، دال چنا، دال مسور ، چاول مہنگے کردیے گئے ہیں۔ دو ماہ کا عرصہ ہوا چاہتا ہے یوٹیلیٹی اسٹور سے آٹا، چینی، مرچ، مصالحے غائب ہیں ایسے حالات میں عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں اور وزیر اعظم کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔
جماعت اسلامی کراچی نے پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ہنگامی پریس کانفرس میں کہا ہے کہ جماعت اسلامی بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔ حکومت نے اگر دس دن کے اندر پٹرولیم مصنوعات، گیس اور کے الیکٹرک کے ٹیرف کو واپس نہیں لیا تو جماعت اسلامی عوامی قوت کے ذریعے بھرپور طریقے سے احتجاج کرے گی اور گورنر ہائوس اور شاہراہ فیصل پر احتجاج اور دھرنا بھی دیا جائے گا۔ بلاشبہ پاکستان کے عوام مہنگائی اور غربت سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کے نام ونہاد تبدیلی کے نعرے سے انہیں اب نفرت ہوگئی ہے۔ معیشت کو درست راہ پر حکومتوں ہی کو گامزن کرنا ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ 2018 میں پبلک سیکٹر انٹرپرائز میں 1300 ارب کا نقصان ہے آج وہ نقصان 2100 ارب روپے پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت جب تک خوراک کی قیمتیںکم نہیںکرے گی۔ شرح سود کم بلکہ سودی نظام کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوگا نہ کاروبار چلے گا اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی بہتر ہوگی۔ حکومت آرڈیننس کے ذریعے ملک چلا رہی ہے۔ موجودہ اسمبلی نے 8قانون 2019 میں پاس کیے جبکہ 22قانون آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر مراد سعید نے لطیفہ سنایا کہ پاکستان آئی سی یو سے نکل گیا ہے۔ ایک جانب 2019 میں جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان کی معاشی نمو 3.3فی صد رہی جبکہ 2018 میں یہ شرح 5.5فی صد تھی۔ اس رپورٹ سے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں دور دور تک مہنگائی اور غربت کے خاتمے اور معیشت کی بہتری اور ترقی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب آپ نے عوام کو بڑی امیدیں دلائی تھیں۔ قوم بجلی گیس کے بلوں کے چکر میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔ کوالاالمپورکانفرنس حکمرانوں کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ عزت، شان اور وقار کے ساتھ زندہ رہتے لیکن آپ عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی نوکری بچانے کے لیے اغیار کی چوکٹھوں پر سجدہ ریز ہوگئے اور ثابت کر دیا کہ آپ نہ ٹیپو سلطان ہیں اور نہ مظلوم عافیہ صدیقی کے بچانے والے محمد بن قاسم۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح کرسی کے پجاری ہیں۔ پرویز مشروف امریکا کی ایک کال پر ڈھیر ہوگئے تھے اور عمران خان بھی سعودی عرب اور امریکا کے ایک اشارے پر یوٹرن لے بیٹھے۔ ترکی، ملائیشیا، قطر اور انڈونیشیا کو سبز باغ دکھانے والے ایک ہی دھمکی پر ڈھیر ہوگئے اور دنیا پر اپنی کمزوری اور بزدلی عیاںکر دی۔ کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنا ایک الگ کام ہے اور امور حکومت چلانا ایک مختلف کام ہے۔ اللہ پاک نے آپ کو عزت دی اور پاکستان کا حکمراں بنایا آپ نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا لیکن سودی نظام کو برقرار رکھا۔ سود اللہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ سود کی وجہ ملک نحوست، مہنگائی، بے روزگاری اور عدم ایک استحکام کا شکار ہے۔ ایک کے بعد ایک نئی مصیبت مسلط ہورہی ہے۔ حکمرانوں کے پاس وقت ہے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں اور ملک سے سودی نظام کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے۔ بے حیائی اور فحاشی کے اڈے فوری طور پر بند کیے جائیں۔ اسلام ایک مکمل نظام ہے اور زندگی کے ہر دائرے میں اس کو عملی طور پر نافذ ہونا چاہیے اور یہ دین اور نظام دنیا میں نافذ ہونے کے لیے ہی آیا ہے۔ اسلام کا عادلانہ نظام اگر دنیا میں نافذ ہوجائے تو دنیا میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔ حکمران مدینے کی باتیں کریں اور کام اللہ کی ناراضی کا کریں تو پھر ملک میں برکت اور خیر کہاں سے آئے گا۔ پاکستان کے غریب عوام مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ نہ ان کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم، صحت کے لیے وسائل ہیں اور نہ ہی سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت عوام کو زندہ درگور کر رہی ہے۔ حکمران پورے ملک میں شیلٹر ہائوس بنا دیں لیکن پھر بھی ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ پاکستان میں غربت مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ مدینے والے نظام کے ذریعے ہی آئے گا اور وہ مدینے والانظام بے خوف قیادت اور دیانت دار قیادت ہی ملک میں نافذ کر سکتی ہے۔