ہندوستان خوف کی سرزمین ہے۔ ہندوئوں کا ہندوستان اسلام کے خوف میں مبتلا ہے۔ اسلامی تہذیب کے خوف میں مبتلا ہے۔ اسلامی تاریخ کے خوف میں مبتلا ہے۔ مسلمانوں کے خوف میں مبتلا ہے۔ پاکستان کے خوف میں مبتلا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں پر یہ ’’راز‘‘ کبھی آشکار نہ ہوسکا۔
ہندوستان کے خوف کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندو فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ سے بھی خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارت میں مسلم مخالف شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہروں میں اقبال، فیض اور جالب کی شاعری مزاحمت کا استعارہ بن کر اُبھری ہے۔ چند روز پیشتر یوپی کے شہر کانپور کی ایک یونیورسٹی میں فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ ایک جلسے میں پڑھی گئی تو اسے ہندو ازم کے خلاف نظم قرار دے کر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی۔ انتہا پسند ہندوئوں نے اس نظم کے دو مصرعوں پر سخت اعتراض کیا ہے۔ یہ مصرع یہ ہیں۔
سب بت اُٹھوائے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
اطلاعات کے مطابق بھارت میں ہونے والے جلسے جلوسوں میں جالب کی نظم ’’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا‘‘ بھی مقبول ہورہی ہے۔ اقبال، فیض اور جالب کے شعر پوسٹروں میں بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ ہندوستان 30 لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط ایک ارب ہندوئوں کا ملک ہے مگر اقبال، فیض اور جالب کی شاعری اسے خوف میں مبتلا کررہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہندوستان اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، مسلمانوں اور پاکستان سے کیوں خوفزدہ ہے؟
مسلمان 712 میں ہندوستان آئے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی صفر تھی۔ آج برصغیر یعنی ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا، برما اور مالدیپ میں 65 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان مسلمانوں کی اکثریت مقامی ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کو Convert کرنے کے لیے کبھی طاقت استعمال کی نہ سرمایہ استعمال کیا۔ مسلمان برصغیر میں آئے اور آکر چلے نہیں گئے بلکہ انہوں نے یہاں ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ ایک بے مثال تہذیب کا تجربہ خلق کیا۔ مسلمانوں نے صرف روحانی اور تہذیبی فتوحات ہی حاصل نہیں کیں۔ انہوں نے ہندوستان کو ایک بڑی اقتصادی قوت میں ڈھال دیا۔ ولیم ڈیل رمپل نے اپنی تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ جس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلوں کے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس وقت ہندوستان عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا، یعنی ہندوستان کی قومی پیداوار عالمی GDP کا 25 فی صد تھی۔ بدقسمتی سے جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر گئے تو اس وقت ہندوستان عالمی GDP کا صرف ساڑھے چار فی صد پیدا کررہا تھا۔
انگریز بھارت چھوڑ کر گئے تو ہندو پورے ہندوستان کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے مگر مسلمانوں کی قوت مزاحمت نے پاکستان کے نام سے جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تخلیق کر ڈالی۔ ہندو قیادت نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ساز باز بھی کی مگر وہ قیام پاکستان کی ’’ہونی‘‘ کو ’’انہونی‘‘ نہ بنا سکے۔ انگریزوں اور ہندوئوں دونوں کا خیال تھا کہ پاکستان بن تو جائے گا مگر قائم نہیں رہ سکے گا۔ مگر پاکستان نے بدترین حالات میں زندہ رہ کر دکھادیا۔ پاکستان 1971ء میں ٹوٹا تو پاکستان کے حکمران طبقے کی حماقتوں، ظلم اور جبر کے نتیجے میں ٹوٹا۔ ورنہ ہندوستان کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ پاکستان کا کچھ بگاڑ سکتا۔
بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے سر پر ’’جوہری بلیک میل‘‘ کی تلوار لٹکا دی۔ جس وقت بھارت نے ایٹم بم بنایا اس وقت پاکستان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سوئی بھی نہیں بناتا۔ پاکستان میں بنیادی سائنسز کی تعلیم تک کا مناسب اہتمام نہیں تھا۔ مگر مسلمانوں اور بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ حیرت انگیز ہے۔ ایک وقت تھا کہ ایک محمد علی جناح نے پاکستان بنا کر دکھا دیا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ صرف ایک ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کو بچا کر دکھا دیا۔ وہ ملک جو سوئی بھی نہ بنارہا ہو وہ اگر صرف ایک دہائی میں ایٹم بم بنا کر دکھادے تو وہ ملک کیا نہیں کرسکتا؟۔
بلاشبہ برصغیر کے مسلمان اگر روحانی، اخلاقی اور تہذیبی کمزوریوں کا شکار نہ ہوئے تو ان کی شاندار سلطنت کبھی ان کے ہاتھ سے نہ نکلتی۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی قوت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد زوال میں اردو کے نام سے ایک بے مثال زبان تخلیق کرکے دکھائی۔ اسی بات کو ہندو تہذیب کے تناظر میں بیان کیا جائے تو اس کی معنویت زیادہ آشکار ہوسکتی ہے۔ سنسکرت ہندوئوں کی مذہبی زبان ہے اور تہذیبی زبان بھی مگر ہندو اکثریت میں ہونے کے باوجود سنسکرت کو مرنے سے نہ بچا سکے۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اقلیت ہونے کے باوجود اپنے عہد زوال میں ایک ایسی زبان تخلیق کر ڈالی جو ان کی مذہبی زبان بھی ہے اور تہذیبی زبان بھی۔ مسلمانوں نے صرف ایک زبان ہی تخلیق نہ کی۔ انہوں نے اس زبان میں بے مثال مذہبی ادب بھی تخلیق کر کے دکھایا، شاعری کی عظیم روایت بھی پیدا کرکے دکھائی، ناول، افسانے اور تنقید کا ایسا سرمایہ بھی پیدا کیا جسے عالمی سطح پر فخر کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ کہنے کو اردو مسلمانوں کی مذہبی، تہذیبی اور تاریخی زبان ہے مگر اس زبان نے پورے برصغیر کے مزاج، ذوق اور اجتماعی حافظے کو متاثر کیا ہے۔
ہندوستان اپنی فلم انڈسٹری پر فخر کرتا ہے اور اس کے ذریعے پاکستان کو فتح کرنے کی بات کرتا رہتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلم تہذیب نے اردو کے ذریعے بھارت کی فلمی صنعت کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ کہنے کو بھارت کی فلمیں ’’ہندی فیچر فلمیں‘‘ کہلاتی ہیں۔ مگر اپنی اصل میں یہ لسانی سطح پر ’’اردو فیچر فلمیں‘‘ ہیں۔ ان کی زبان، بیان اور مکالموں پر اردو کی گہری چھاپ موجود ہے۔ ہندوئوں کے یہاں شاعری کی بڑی روایت موجود نہیں۔ چناں چہ ایک ارب ہندوئوں کا شعری حافظہ بھارتی فلموں کے گیتوں پر مشتمل ہے۔ اتفاق سے بھارتی فلموں کے 99 فی صد گیت اردو میں ہیں اور ان پر غزل کی روایت اور مسلمانوں کے تہذیبی اظہار کا گہرا سایہ ہے۔ ذرا بھارتی فلموں کے چند گیتوں کے مکھڑے تو ملاحظہ کیجیے۔
(1) ابتدائے عشق میں ہم ساری رات جاگے
اللہ جانے کیا ہوگا آگے
مولا جانے کیا ہوگا آگے
(فلم۔ ہریالی اور راستہ)
(2) پھولوں سے مکھڑے والی
نکلی ہے اک متوالی
گلشن کی کرنے سیر
خدایا خیر
لے تھام لے مری بانہیں
اونچی نیچی ہیں راہیں
کہیں پھسل نہ جائے پیر
خدایا خیر
(فلم۔ آئے دن بہار کے)
(3) تری آنکھ کا جو اشارہ نہ ہوتا
تو بسمل کبھی دل ہمارا نہ ہوتا
(فلم۔ نئی روشنی)
(4) یہ لڑکا ہائے اللہ کیسا ہے دیوانہ
کتنا مشکل ہے توبہ اس کو سمجھانا
کہ دھیرے دھیرے دل بے قرار ہوتا ہے
ہوتے ہوتے ہوتے پیار ہوتا ہے
(فلم۔ ہم کسی سے کم نہیں)
(ایک آواز)
(5) اے کاش کسی دیوانے کو
ہم سے بھی محبت ہوجائے
ہم لٹ جائیں دل کھو جائے
بس آج قیامت ہوجائے
(دوسری آواز)
ہے وقت ابھی توبہ کر لو
اللہ مصیبت ہو جائے
(فلم۔ آئے دن بہار کے)
زیر بحث موضوع کے حوالے سے یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام گیت بھارتی فلموں میں ’’ہندو کرداروں‘‘ پر فلمائے گئے ہیں۔ خدانخواستہ اردو نہ ہو تو بھارت کے ایک ارب ہندوئوں کا ’’شعری حافظہ‘‘ بھی نہ ہو۔ وہ اپنی محبت کے اظہار کے لیے سانچہ تک نہ وضع کرسکیں۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو ہندوستان کا مسلم تہذیب سے خوف زدہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ ہندوستان نے اگر گزشتہ سو سال میں پانچ ہزار مشہور اور مقبول گیت پیدا کیے ہیں تو ان تمام گیتوں پر اردو کی روایت سایہ کیے ہوئے ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بڑا سانحہ نہ ہوا تو 2050ء تک جنوبی ایشیا میں ایک ارب 25 کروڑ سے زیادہ مسلمان موجود ہوں گے۔ خود بھارت میں مسلمانوں کی آبادی چالیس سے پچاس کروڑ کے درمیان ہوگی۔ چناں چہ برصغیر کے مسلمان اگر اپنے مذہبی اور تہذیبی تشخص سے چمٹے رہیں گے تو ہندوستان چاہ کر بھی اسلام، بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان کا کچھ بگاڑ نہ سکے گا۔ بھارت نے ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں، پاکستان اور بنگلادیش کے ساتھ ظلم کی حد کردی ہے۔ اسے آج نہیں تو کل اس ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ظلم خود ایک بہت بڑی کمزوری اور مظلومیت خود ایک بہت بڑی قوت ہے۔ چناں چہ ہندوستان، اسلام، اسلامی تہذیب، بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان سے خوف زدہ ہے تو یہ سمجھ میں آتی ہے۔