جاوید الرحمن ترابی
ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ خطے میں امن خراب کرنے والے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے کے حالات میں تبدیلی آئی ہے، خطے میں امن کے لیے بھرپور کردار ادا کریںگے۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے عسکری ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف بھی اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے کا کہہ چکے ہیں۔ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں مگر ملکی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہوگا۔ ان کے بقول اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بات چیت کی تھی۔ آرمی چیف نے انہیں بتایا کہ خطہ خراب حالت سے بہتری کی طرف جارہا ہے۔ اس کے برعکس مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ خطہ حالات بہتر ہونے کے باوجود ابتری کی طرف جارہا ہے جس پر آرمی چیف نے انہیں کہا کہ خطے کے ممالک میں کشیدگی کم ہونی چاہیے۔ افغان مصالحتی عمل کو خراب کرنے کی کوشش سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمارا خطہ چار دہائیوں سے امن کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے۔ بھارت نے جارحیت دکھائی جبکہ پاکستان نے ہر وہ اقدام کیا جس سے امن قائم ہو۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان ملک کا دفاع کرنا جانتی ہیں اور بھارت بھی یہ بات جانتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم اور آرمی چیف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہم اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیںگے اور ہر وہ کام کریںگے جو خطے کو امن کی طرف لے کر جائے۔ پاکستان کسی کا یا کسی چیز کا فریق نہیں بنے گا، صرف امن کا شراکت دار بنے گا۔ ایران کیخلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بننے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی افواہیں بالخصوص سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں‘ ان کی عوام اور میڈیا سے درخواست ہے کہ صرف معتبر ذرائع کی بات چیت پر توجہ دیں‘ ملک دشمن عناصر کی پھیلائی افواہوں پر قطعاً توجہ نہ دیں۔ ایسی افواہیں پھیلانے میں بھارت مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں باور کرایا ہے کہ ہم خطے میں امن، استحکام اور سلامتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ انہوںنے گزشتہ روز ایرانی، سعودی، ترک اور اماراتی وزراء خارجہ سے بھی رابطے کیے اور حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقین سے اختلافات پرامن طریقے سے حل کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے بھی اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان علاقائی تنازعے کا حصہ بنے گا نہ اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے دیگا۔
عراق میں ایک اہم ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ان کے ساتھیوں سمیت ڈرون حملے میں قتل کراکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرات لاحق کردیے ہیں۔ ایران نے اپنے اہم کمانڈر کے بہیمانہ قتل کے ردعمل میں امریکا کو بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے جس کے جواب میں ٹرمپ نے ایران کے 52 اہم اور حساس مقامات کے امریکی ہدف پر ہونے اور ایران کیخلاف نیا ہتھیار استعمال کرنے کا اعلان کرکے خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ امریکی صدر نے صرف زبانی دھمکیوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہزاروں امریکی میرینز مشرق وسطیٰ روانہ بھی کردیے گئے ہیں اور برطانیہ نے بھی اپنے دو بحری بیڑے بھجوا دیے ہیں جو حالات کی سنگینی کا واضح اشارہ دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بقول تہران نے حملہ کیا تو جوابی حملہ تیز اور انتہائی شدت کے ساتھ کیا جائے گا۔ اس صورتحال میں خطے کا کوئی ملک کشیدگی کی اس لہر سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اسی تناظر میں خبردار کیا ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایران اس جنگ کا نکتہ ٔ آغاز ہوگا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ مشرق وسطیٰ میں طبل جنگ بج چکا ہے اور اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ عربوں کو ہلاک کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ کی زیرکمان امریکا نے مسلمانوں کیخلاف ایک نئی کروسیڈ کا آغاز کردیا ہے جس سے عہدہ برأ ہونے کے لیے مسلم دنیا کو اپنے تمام فروعی اختلافات تج کر امت ِ واحدہ کے طور پر اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں خود کو پرونا ہوگا۔ اس حوالے سے اتحاد امت کے لیے سب سے پہلے عراق نے پیش رفت کی اور عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے نہ صرف ایران کے مقتول کمانڈر قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ میں شرکت کی بلکہ اپنے ملک سے امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کے لیے عراقی پارلیمنٹ میں قرارداد بھی منظور کرالی اور پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایرانی جنرل سلیمانی سعودی عرب کے لیے اہم پیغام لے کر آئے تھے جن سے ان کی ملاقات شیڈول تھی۔
امریکا نے اپنے حالیہ اقدامات سے صرف ایران کے لیے نہیں، مشرق وسطیٰ اور ہمارے خطے کے تمام ممالک کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں اور اگر امریکا ایران کشیدگی عالمی ایٹمی جنگ پر منتج ہوتی ہے تو اس کی تباہ کاریاں پوری دنیا میں پھیل سکتی ہیں چنانچہ کوئی بھی ملک اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یہی وقت ہے کہ تمام عالمی قیادتیں اور نمائندہ عالمی اداروں کے سربراہان سرجوڑ کر بیٹھیں اور عالمی امن و سلامتی کو دامن گیر ہوتی امریکا ایران کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی قابل عمل راستہ تلاش کریں بصورت دیگر کسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہمارے لیے تو یہ صورتحال اور بھی تشویشناک ہے کہ ہمیں پہلے ہی ازلی مکار دشمن بھارت کے ہاتھوں اپنی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں میں اضافہ کرکے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا جواز ڈھونڈ رہی ہے۔ چونکہ مودی سرکار کو بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے امریکی ٹرمپ انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہے اس لیے خود ٹرمپ کا اس خطے میں مودی کی ڈگر پر چلنا فی الواقع طبل جنگ بجانے کے مترادف ہے۔ اس میں ماضی کی طرح امریکا کے ساتھ کھڑا ہونا اور اس کے مفادات کی جنگ میں پہلے ہی کی طرح اس کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنا ہمارے لیے پہلے سے بھی زیادہ مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکی نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے اس وقت کے کمانڈو صدر جنرل مشرف نے محض ایک ٹیلی فونک کال پر ڈھیر ہو کر امریکی احکام کی تعمیل کے لیے سر تسلیم خم کرلیا نتیجتاً پاکستان امریکی فرنٹ لائن اتحادی بن کر بدترین دہشت گردی‘ خودکش حملوں اور پھر امریکی ڈرون حملوں کی بھی لپیٹ میں آگیا۔ اس جنگ میں پاکستان نے نہ صرف امریکی ناٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی بلکہ اپنے تین ائر بیس بھی امریکا کے حوالے کردیے۔ اسی کا ردعمل ہمیں اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کے مالی نقصانات کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
اس کے باجود امریکا ہم سے مطمئن نہیں ہوا اور اس نے ڈومور کے تقاضے بڑھاتے بڑھاتے پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرات پیدا کردیے ہمارے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ دشمنوں جیسا ہی رہا ہے اور گزشتہ سال ہی جب امریکا کو افغانستان سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کے لیے جنگجو افغانیوں اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی مجبوری لاحق ہوئی تو ٹرمپ انتظامیہ کو اس کے لیے پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوا چنانچہ اس کے ساتھ اعتماد سازی کی بحالی کے اقدامات اٹھائے جانے لگے۔ ابھی پاکستان امریکا تعلقات کشیدگی کی فضا سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل پائے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ تنازع پیدا کرکے خطے میں نئی جنگ کے خطرات لاحق کردیے ہیں جس میں لامحالہ امریکا کی خواہش ہوگی کہ پاکستان پہلے کی طرح فرنٹ لائن اتحادی کی صورت میں اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے جبکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان امریکا کے لیے پہلے والے کردار کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے پہلے ہی بھارت کی جانب سے اپنی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اگر امریکا بھارتی جارحانہ عزائم کیخلاف ہمارا ساتھ نہیں دیتا اور بھارت کی سرپرستی کرکے اس کے حوصلے مزید بڑھاتا ہے تو ہم کیونکر امریکی جنگ میں اس کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ہماری سول اور عسکری قیادتوں نے اسی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے امریکا ایران ممکنہ جنگ میں کسی کے ساتھ فریق نہ بننے اور اپنی سرزمین کسی کے بھی خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا صائب فیصلہ کیا ہے۔ مناسب ہے کہ اب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے خطے کی پیدا شدہ سنگین صورتحال پر سیر حاصل بحث مباحثہ کیا جائے اور ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ایک جامع قومی پالیسی کا اعلان کر دیا جائے۔ امریکا اور اس کے غیرمسلم اتحادیوں کی یہ جنگ بہرحال مسلمانوں کیخلاف کروسیڈ ہوگی جو فی الحقیقت اتحاد امت کی متقاضی ہے۔