سوجوتے اور سو پیاز کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی با لآخر فیصلہ کرلیا:
ہم لیٹیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی لیٹیں گے
ہم لیٹیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ہم چاٹیں گے
لازم ہے کہ جوتے چاٹیں گے
ہم چاٹیں گے
جنرل باجوہ کی توسیع پرعدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد یہی توقع تھی کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھر بھری مٹی کے بت کی طرح جنرل صاحب کے قدموں میں لیٹ جائے گا، یوٹرن پر صرف خان صاحب کا اجارہ تو نہیں ہے، یوٹرن لینے اور اس پر نہ شرمانے کا حق ن لیگ کو بھی حاصل ہے۔ سو، ہر بری توقع کی طرح یہ توقع بھی پوری ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جب ن لیگ سے رابطہ کیا گیا تو ابتداً ن لیگ کچھ کنفیوز تھی کہ چیف صاحب کے پائوں دھو دھو کر پینے کی رسوائی مول لینی ہے یا کال کوٹھڑیوں میں اوندھے منہ ہی پڑا رہنا ہے۔ لندن میں ن لیگ کی تمام نروس قیادت جمع کر لی گئی۔ اس میں تھوڑی سی آنا کانی، حجت اور تکرار کے بعد معاملہ اس بات پر آکر اٹک گیا کہ چیف صاحب کے دربار میں ٹھمکا ہو یا ٹھیکا۔ ایکسٹینشن کا ہجوم شوق اس تاخیر کی تاب نہ لاسکا۔ اس خیال سے کہ ہر چند نشانہ اونچی مچان سے لگایا جارہا ہے پھر بھی شیر کہیں ادھر ادھر نہ ہو جائے ’’قیادت‘‘ کی طرف سے ’’حکومت‘‘ کو ہدایت کی گئی کہ عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی اپیل دائر کی جائے۔ حکومت نے پٹیشن داخل کردی لیکن یہ ایک پر خطر راستہ تھا۔ خان صاحب کے طعنوں نے عدلیہ کو رسکی بنادیا تھا۔ یہ کشمکش جاری ہی تھی کہ لندن سے پیغام آگیا ’’میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں‘‘۔ ہائے شعیب بن عزیز کی کیا غزل یاد آئی ہے
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کا موں میں
اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں
زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے
دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں
سیاست جی ایچ کیو کی راہداریوں ہی میں نکھرتی ہے۔ یہی وہ گلیاں ہیں جہاں دلبروں سے دل لگی کام سنوارتی ہے ورنہ زندگی بکھر جاتی ہے پلیٹلٹس کی تعداد پوری کرنے کے لیے برادر خورد کو کمال دکھانا پڑتا ہے۔ چپکے چپکے مذاکرات کرنے پڑتے ہیں۔
احتجاج مسلم لیگ کا طرز سیاست نہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازیاں میاں صاحب کو اس بند گلی میں لے جاتی ہیں۔ میاں صاحب ذاتی کاروبار کی خود اقتداری اور خودارادی کے عادی ہیں۔ ملازمت ان کے بس کا روگ نہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں لیکن باس کا تحکمانہ رویہ انہیں بے ادبی پر مجبور کردیتا ہے۔ اس رویے کے باعث وہ ایک مرتبہ بے آبرو دوسری مرتبہ ہائی جیکر اور تیسری مرتبہ سسلین مافیا اور گاڈ فادر قرار دے کر نکالے گئے۔ شہباز شریف انہیں سمجھاتے ہیں کہ ستر برس سے اس ملک کے فاتحین کے رگ پٹھوں کا مقابلہ کرنا جمہوری ذیابیطس کے لیے ممکن نہیں لیکن نہ جانے وہ کون سی گھڑی تھی جب میاں صاحب نے طائر لاہوتی والا شعر سنا تھا اور یقین کرلیا تھا کہ اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔ یہ شعر انہیں پاکستان کا چی گویرا بننے پر مائل کرتا ہے۔ اس مرتبہ بھی شاید ایسا ہی ہوتا لیکن شہباز شریف اور ان کی لابی آڑے آگئی۔ میاں صاحب کے امراض کی تفصیل سنیں تو لگتا ہے بس زچگی کے درد رہ گئے ہیں میاں صاحب کے جسم وجاں جن سے ناآشنا ہیں ورنہ کون سا مرض اور درد ہے جو انہیں لاحق نہیں۔ سو، امراض کے ہاتھوں لاچار میاں صاحب کو مجبوراً دانائی کی یہ بات ماننا پڑی۔
شہباز شریف نے جب سے کوچۂ سیاست میں قدم رکھا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی عظمت کے قائل ہیں۔ وہ اس غبار کو دل میں جگہ نہیں دیتے جس سے اسٹبلشمنٹ سے اظہار عقیدت میں فرق آتا ہو۔ وہ طاقت کے مراکز سے محاذ آرائی کو سیاسی نا پختگی اور خالی پیٹ نعرے لگانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ کانچ کی چوڑیاں کتنی ہی زور سے کھنکتی ہوں اقتدار کی طلائی چوڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ یہ عقیدہ مسلم لیگ کی فطرت کے عین مطابق ہے میاں صاحب کے کمزور پڑنے سے جس کے بو لنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ ان صاحبان وقت شناس نے میاں صاحب کو سمجھایا کہ ذرا ہتھ ہو لارکھیں۔ میاں صاحب کو بھی ماننا پڑا۔ مجھے کیوں نکالا، ووٹ کو عزت دو اور فوج سے محاذ آرائی کا شمار اب ن لیگ میں حرام اشیا میں ہونے لگا ہے۔ مریم نواز بھی اب ضبط کی تصویر بن کر بیٹھ گئی ہیں۔ فی الحال وہ کھیل سے باہر ہیں۔
ہم نے تو جب سے دیکھا ہے سیاست کو بے اصولا ہی پایا۔ اصول اور نظریات سے بے گانہ۔ نہ دوستی نہ دشمنی۔ اپنی باری کا انتظار۔ آج عمران خان کا فوج سے تال میل مثالی ہے لیکن کب تک۔ ایک نہ ایک دن ان تعلقات میں دراڑ آنی ہے۔ تب ن لیگ نے آگے بڑھ کر فوج کو پیار کی جھپی ڈال لینی ہے۔ پھر عمران خان کو سمجھ میں نہیں آئے گا کہ مجھے کیوں نکالا۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ رہے عوام تو وہ عقیدت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی
خان صاحب کی حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ ہر محاذ پر ناکام لیکن کیا عوام خان صاحب سے متنفر ہوگئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ عمران خان جلسوں کا سلسلہ شروع کردیں عوام اسی ولولے سے ناچتے گاتے ان کے حق میں نعرے لگا رہے ہوں گے۔ پیپلز پارٹی نے پچھلے پچاس برس میں اہلِ سندھ کو بدترین غربت اور افلاس کے سوا کیا دیا لیکن ان کے ووٹرز کی بندگی میں کوئی فرق پڑا؟۔ جنرل صاحب کی ایکسٹینشن کی غیر مشروط حمایت پر آج ن لیگ کا مذاق اڑایا جارہا ہے لیکن کل کس کو یاد رہے گا۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ فوج کب تک عمران خان کا ساتھ دے گی؟ جمہوری ذیابیطس میں ہمیشہ ایک ہی طرح کی دوا فائدہ نہیں دیتی۔ دوا بدلنی بھی پڑتی ہے۔