ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
مہر کی تعیین میں لڑکی کی مرضی
س: مہر طے کرنے کا حق لڑکی کے والدین کو ہے، یا اس میں لڑکی کی مرضی کا بھی کچھ دخل ہے؟
ج: مہر نکا ح کی شرائط میں سے ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا تذکرہ نہ ہو تب بھی عورت ’مہر مثل‘ (یعنی مہر کی وہ مقدار جو عورت کے خاندان میں دوسری عورتوں کی طے ہوئی ہو) کی حق دار ہوتی ہے۔ دونوں خاندانوں کے ذمے دار باہم مشورہ کرکے مہر کی کوئی بھی مقدار طے کر سکتے ہیں۔ مہر بہت زیادہ طے کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ چوں کہ مہرعورت کا حق ہے اس لیے اسے طے کرتے وقت عورت کی مرضی بھی معلوم کرنی ضروری ہے۔
مہر میں کچھ رقم طے کرنا ضروری ہے؟
س: ایک لڑکی کہتی ہے کہ میں مہر کے طور پرکچھ بھی رقم نہیں لوں گی۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ میرا ہونے والاشوہر دین کے کاموں میں میرا تعاون کرے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
ج: مہر عو رت کی عزت افزائی کی ایک علامت ہے۔ قرآن مجید میں اسے ’صدقہ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ اسے ادا کریں۔ (النساء4) احادیث کے عمومی رجحان کو دیکھتے ہوئے فقہا نے کہا ہے کہ مہر مال کی شکل میں ہونا چاہیے۔ اگرچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مال ہونا ضروری نہیں۔ ام سلیمؓ کو ایک صاحب نے نکاح کی پیش کش کی۔ اس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ ام سلیمؓ نے فرمایا کہ آپ اسلام لے آئیں تو میں نکاح کر سکتی ہوں اور یہی میرا مہر ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ (نسائی) ایک نوجوان سے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ مہر میں کچھ دو، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ جب اس نے کہا کہ میرے پاس وہ بھی نہیں ہے تو آپ نے فرمایا: اچھا تو اپنی بیوی کو قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد کرا دینا۔ (بخاری و مسلم)
اللہ کے رسولؐ نے گیارہ نکاح کیے، آپ نے اپنی بیٹیوں اور دیگر رشتے دار لڑکیوں کا نکاح کیا، سب میں مہر مال کی شکل میں طے کیا گیا۔ صحابہ کرامؓ کے نکاحوں میں بھی عموماً مال کی کوئی مقدار طے ہوئی۔ اس لیے اس تعامل کو دیکھتے ہوئے مہر مال کی شکل میں طے ہونا چاہیے۔ البتہ قرآن میں عورتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اگر چاہیں تو کل مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر سکتی ہیں۔ (النساء 4)
مہر کی رقم میں اضافہ
س: کیا مہر کی رقم میں نکاح کے بعد اضافہ کیا جا سکتا ہے؟
ج: نکا ح کی حیثیت ایک معاہدہ (Contract) کی ہے۔ اس موقع پر بطور مہر جو رقم طے ہو، اس کی ادائیگی شوہر کے ذمے لازم ہے۔ اس لیے وقت ِ نکاح مہر کی جو رقم طے ہو اتنی ہی لینے کا عورت کو حق ہے، بعد میں اس میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر شوہر اپنی خوشی سے اس میں اضافہ کرکے بیوی کو دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
تاخیر سے مہر کی ادائیگی
س: نکاح کے موقع پر مہر کی جو رقم طے ہوئی تھی، شوہر نے اسے ادا نہیں کیا۔ پچیس (25) برس کے بعد اب وہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس عرصے میں روپے کی قدر (Value) میں جو کمی آئی ہے، کیا اس کا حساب کرکے شوہر مزید رقم ادا کرے گا؟
ج: مہر کی جو رقم طے ہو وہ شوہر کے ذمے قرض ہے۔ فقہا نے مہر کی دو قسمیں بیان کی ہیں: 1 ۔ مہر معجل، یعنی جسے فوراً ادا کر دیا جائے۔ 2۔ مہر مؤجّل، یعنی جسے بعد میں ادا کیا جائے۔ مہر کو فوراً یا حسب ِ سہولت جلد از جلد ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو روپے کی قدر میں کمی کا حوالہ دے کر مہر کی متعین رقم سے زیادہ کامطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے دس ہزار روپے قرض لیے تو اس کے ذمے اتنی ہی رقم کی واپسی ہے، چاہے جتنے سال بعد واپس کرے۔ یہی حکم مہر کا بھی ہے۔ البتہ شوہر اپنی خوشی سے اس میں اضافہ کرکے دے سکتا ہے۔