7جنوری کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا اسے کئی نام دیے جاسکتے ہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے ہمارے ملک میں ایک بار پھر نظریہ ضرورت جیت گیا اور جمہوریت ہار گئی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی روایت پر عمل کرتے ہوئے یوٹرن لے لیا۔ ہمیں اب سے تین برس پہلے آصف زرداری کا وہ بیا ن یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی یہاں ان کے جملے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے عوام سب جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔ اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے، اس حوالے سے ان کا بیانیہ ہمیشہ سے سخت رہا ہے، زرداری صاحب کو یہ امید تھی کہ ملک کی بڑی اور برسراقتدار جماعت کی طرف سے ان کو اس بیانیے کی سیاسی حمایت مل جائے گی، لیکن ان کو اس وقت بہت حیرانی اور ایک لحاظ سے شرمندگی ہوئی جب اسلام آباد میں نواز شریف نے ان سے ملنے سے انکار کردیا، پھر کچھ دن کے بعد آصف زرداری امریکا چلے گئے۔
ن لیگ کا بیانیہ اس حوالے بہت صاف اور شفاف تھا، آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہ سمجھ لیں کے بیان اور بیانیے میں کیا فرق ہے، سیاست کی دنیا میں لفظ بیانیہ کچھ عرصہ پہلے ہی داخل ہوا ہے، بیان عارضی موقف ہے تو بیانیہ مستقل موقف کا نام ہے، مثلاً 1999کے بعد سے نون لیگ کا اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ایک خاص موقف رہا ہے پچھلے ایک دو سال سے ان کی تقریریں، اخباری بیانات، پریس کانفرنسیں، غیر رسمی گفتگو، ان سب میں یہی بیانیہ غالب رہتا تھا، 7جنوری کے کیپٹل ٹاک میں حامد میر نے نواز شریف کی تقاریر سے وہ اقتباسات ناظرین کو سنائے جو پچھلے برسوں میں وہ جلسوں میں کہتے رہے ہیں جس سے ان کے عزائم کا اندازہ ہوجاتا تھا۔ اور وہ ہی نہیں ان کی جماعت کے دیگر رہنما بھی اسی لائن پر چل رہے تھے لیکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں ن لیگ نے جو یوٹرن لیا اسے تو کئی صحافیوں اور دانشوروں نے لیٹ جانے سے تشبیہ دی ہے۔ ن لیگ کے ایک رہنما جاوید ہاشمی کا تو یہ بیان شائع ہوا کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں ایک بار پھر باغی بننا پڑے گا۔ ن لیگ ایک طرح سے انتشار کا شکار ہوگئی ہے، ایک وقت تھا جب چودھری نثار نواز شریف کو سمجھایا کرتے تھے، کہ وہ اپنے سخت موقف یا بیانیے پر نظر ثانی کریں زمینی حقائق کے تقاضے کچھ اور ہیں لیکن نواز شریف نے چودھری نثار کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ان کی پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت ضد اور انا کو ایک طرف رکھ کر چودھری نثار کی بات مان لی جاتی تو نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن جاتے۔ بہر حال دیر آید درست آید کی مانند اب جو انہوں نے یوٹرن لیا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ شہباز شریف کے موقف کی حمایت کی ہے وہ دراصل اپنے سیاسی راستوں میں رکاوٹوں کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ کل تک نواز شریف جو موقف اپنائے ہوئے تھے ن لیگ کے کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت ان کے ساتھ تھی لیکن یہ اکثریت اب مایوس ہو گئی، اس حوالے سے جب ایک معروف صحافی سے سوال کیا گیا کہ کارکنوں کے جذبات کو بلڈوز کرکے سیاسی جماعتیں ایسے فیصلے کیوں کر لیتی ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ جس طرح ہمارے ملک میں جاگیرداری سسٹم ہے کہ ایک جاگیردار جو بھی فیصلہ کرلے وہ فیصلہ مزارعوں کو ماننا پڑتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی ایک طرح سے جاگیردار کی طرح سے ہو تے ہیں وہ جو بھی فیصلہ کر لیں وہ کارکنان کو دل پر پتھر رکھ کر ماننا ہی پڑتا ہے۔
چند روز قبل ایک مضمون میں، میں نے پڑھا کہ لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے کسی سے کہا کہ پاکستان کی فوج اسلامی دنیا کی سب سے مضبوط فوج ہے، دشمنان اسلام اس کو کمزور کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اس کو سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے جن ممالک کی فوجیں کمزور تھیں آج وہی ممالک انتشار کا شکار ہیں، لیبیا، عراق اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح ایک بات اور جو پوری دنیا مانتی ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے کسی جگہ امن و امان کے قیام کے حوالے سے پاکستانی فوج کو جہاں بھیجا گیا وہاں انہوں نے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں کچھ پاکستانی کھانا کھانے گئے وہاں ایک نوجوان خوبرو خاتون ویٹر تھی اسے جب پتا چلا کہ یہ پاکستانی لوگ ہیں وہ بہت خوش ہوئی پھر اس نے اپنا واقعہ بتایا کہ وہ بوسنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ جب اقوام متحدہ کی طرف سے امن و امان کے قیام کے لیے ہمارے علاقے میں پاکستانی فوج آئی تو پاکستانی فوجیوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ انہوں نے نہ صرف ہمیں سربیائی غنڈوں سے بچایا بلکہ ہماری پوری طرح حفاظت کی اور یہاں تک ہوا کہ یہ اپنے حصے کا کھانا ہمیں کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ پاکستانی بہت اچھے لوگ ہیں۔
آرمی ایکٹ کے حوالے جو ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پاس ہوا ہے اس میں تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک صفحہ پر آگئیں اور بغیر کسی حیل حجت کے بیس منٹ میں یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہو گیا اور دوسرے دن یہ سینیٹ سے بھی منظور ہو گیا، جس وقت آپ مضمون پڑھ رہے ہوں گے صدر صاحب بھی اس پر دستخط کرچکے ہو ں گے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور پختون تحفظ موومنٹ بائیکاٹ کر کے ووٹنگ کے عمل سے اپنے آپ کو الگ رکھا اور اس طرح ان جماعتوں نے اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ سرکاری بل پر سابق حکمران پارٹیوں نے اصولوں کے بجائے اپنی مجبوریوں کو ووٹ دیا ہے، جب کہ جماعت اسلامی نے ملکی تاریخ کے اہم موقع پر درست سمت میں کھڑے ہو کر اصولوں کا ساتھ دیا ہے، بل کی حمایت کرنے والی موجودہ و سابق حکمران پارٹیاں قومی اور عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے کیوں ایک نہیں ہوتیں۔ اس وقت ملک میں تعاون و اتحاد کی جو فضاء قائم ہوئی ہے اس کو نہ صرف برقرار رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھا کر عوام کے دیرینہ مسائل مہنگائی، بیروزگاری اور امن و امان کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔