قاسم جمال
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں فیصل آباد میں شیلٹر ہائوس کا افتتاح کیا اور وہاں کے رہائشیوں کے لیے پکایا ہوا کھانا آلو گوشت بھی کھایا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ شیلٹر ہائوس میں پکا ہوا آلو گوشت وزیر اعظم ہائوس کے پکے ہوئے کھانے سے بھی بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی وعدے اور منشور میں ریاست مدینہ کا وعدہ کیا تھا۔ ریاست مدینہ اچانک نہیں بن گئی ریاست مدینہ کے قائم ہونے میں بڑ اوقت لگا تھا۔ سوشل میڈیا میں وزیر اعظم کے اس اقدام کے خلاف بڑا شور اٹھا ہوا ہے اور ان کے مخالفین نے ایک طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ وزیر اعظم پتا نہیں کن کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ اس سے قبل مرغی، بکری اور مرغی کے انڈوں کی فروخت پر وہ اپنا تمسخر اڑوا چکے ہیں۔ پاکستان کے ہر گلی کوچے میں سیلانی چھیپا ودیگر رفاحی ادارے بھوکے لوگوںکو دوپہر اور رات کا کھانا دستر خوان لگا کر کھانا کھلا رہے ہیں۔ ان رفاحی اداروں کے اس اقدام پر اکثر لوگ سخت تنقید کرتے ہیں اور اسے پوری قوم کو فقیر بنانے اور بھیک مانگنے کا راستہ قرار دیتے ہیں۔ نبی اکرمؐ کے پاس ایک شخص آیا اس نے اپنی معاشی پریشانی کا ذکر کیا۔ رسول اللہؐ نے اس شخص کو ایک کلہاڑی اور رسی دی اور کہا کہ وہ جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹے اور اسے بازار میں فروخت کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالے۔ ریاست مدینہ قائم کرنے کے دعویداروں کے لیے نبی اکرمؐ کا یہ عمل ایک نمونہ ہونا چاہیے تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ لنگر خانہ کھول کر پوری قوم کو بھکاری اور فقیر بنا دیں۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ ملک میں کارخانے فیکٹریاں قائم کر کے لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کرتے۔ وزیر اعظم مغرب اور ان کے اداروں سے بڑے مرعوب ہیں۔ انہیں اس کی بھی خبر ہوگی کہ برطانیہ ودیگر مغربی ممالک میں عمر لا کے نام سے بچوں کی پیدائش پر وظیفہ قائم ہے اور تقریباً تیس ہزار روپے پاکستانی ہر بچے کی پیدائش پر ان کے والدین کو دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں غربت مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکسںنے پچھلے سال ستمبر کے مقابلے میں 2019 کے ستمبر کے لیے مہنگائی میں اضافے کی شرح 11.4فی صد کا تخمینہ لگایا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے گھریلو بجٹ پر بہت برا اثر پڑا ہے اور غریبوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں حکومتی رکن قومی اسمبلی نور عالم نے بھی قومی اسمبلی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر سخت احتجاج کیا اور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ جس پر وزیر اعظم اپنے رکن قومی اسمبلی پر سخت برہم ہوگئے اور نور عالم خان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ادوار میں جب لوٹ مار ہو رہی تھی تو اس وقت نور عالم کیوں نہیں بولے انہوں نے کہا کہ نور عالم تمہیں ابھی یاد آیا ہے۔ مہنگائی ہورہی ہے۔ نور عالم سمیت سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ مہنگائی کی وجہ کیا ہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس اشیاء پر نہیں لگانا چاہیے جو غریب عوام استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ بجٹ کے بعد منی بجٹ معمول بنا ہوا ہے۔ نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی حکومت نے یکم جنوری سے بجلی مہنگی، پٹرولیم مصنوعات کا قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام مہنگائی کے بم برسا دیے۔ حکومت کی جانب سے سال کے اس نئے تحفے کی وجہ سے ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ چینی، دودھ، گھی، تیل، چاول، دالوں کی قیمتوں کے علاوہ سبزیاں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ ٹماٹر پیاز، لہسن، آلو، ادرک کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مرغی 380 روپے کلو پر فروخت ہوئی جب کہ پھلوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کمشنر کی خصوصی ہدایت اور تاکید کے باوجود دودھ 84روپے کلو کے بجائے 120 اور 110 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہورہا ہے اور کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ ادویات کی قیمتوں بالخصوص جان بچانے والی ادویات میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شوگر اور دل کے امراض کی ادویات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں والدین کا اپنے بچوں کے لیے تعلیم اور صحت کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے۔ ملک بھر کی جامعات کو ہائر ایجوکیشن کے طلبہ ودیگر اخراجات کے لیے دی جانے والی امداد بھی روک دی گئی ہے اور یونی ورسٹی کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مخیر حضرات کے تعاون سے اپنے اخراجات پورے کریں۔ ان حالات میں یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں طلبہ وطالبات کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آرہا ہے۔
پاکستان کے قیام کو 72سال کا طویل عرصہ ہوا چاہتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو اب تک ایسے حکمراں میسر نہیں آسکے جو غریب کے لیے کوئی عملی کام کرتے۔ تحریک انصاف جو تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی لیکن ایک سال کے عرصے میں ہی اس نے عوام کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجوں میں پھنسی تحریک انصاف کی حکومت کا تیزی کے ساتھ مورال گرتا جا رہا ہے۔ عمران خان ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات کی فراہمی کا اعلان ایک خواب نظر آرہا ہے۔ غریب آدمی جس کو سر چھپانے کا بھی آسرا نہیں ہے۔ سرکاری اسپتال اور سرکاری اسکول بدانتظامی اور کرپشن کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ کے ایم سی کے سابق ڈائریکٹر پارک اور میئر کراچی کے مشیر لیاقت قائم خانی کی لوٹ مار اور ان کے گھر سے برآمد ہونے والی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں اور ہیرے جوہرات نقدی اور سونے کے زیورات اور لاہور کراچی اسلام آباد کے پوش علاقوں میں محلات نما بنگلوں نے کرپشن کی دیگ کے ایک چاول کو بے نقاب کردیا ہے۔ کرپشن کے شکنجہ میں پھنسے اس پورے معاشرے کو سدھارنے کے لیے اسلام کا قانون اگر ملک میں نافذ کردیا جائے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا قانون ایک جیب کترے کو تو سزا دینے میں بڑا متحرک ہے لیکن 70سال سے قوم کی دولت لوٹنے والے بڑے بڑے مگرمچھوں کے سامنے یہ بے بس اور لاچار ہے۔ حکمران جب چاہے این آر او بنا کر اپنا راستہ صاف کر لیتے ہیں۔ قوم کے اربوں ڈالر اب بھی سوئزلینڈکے بینک میں موجود ہیں۔ لیکن اقتدار کے نشے میں مست حکمران میڈیا ٹرائل کرکے قوم کو دھوکے پر دھوکا دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا چاہتا ہے۔ اللہ پاک نے آپ کو اقتدار پر بیٹھا دیا ہے تو آپ کی ذمے داری ہے کہ عوام کو تعلیم، روزگار صحت اور سر چھپانے کا ٹھکانہ فراہم کریں۔ لیکن اگر آپ نے دوسرے حکمرانوں کی طرح فرار کا راستہ اختیار کیا تو جان رکھیے کہ آپ کی پکڑ زیادہ ہوگی کیونکہ آپ نے ریاست مدینہ کے قیام کا نعرہ لگا کر لوگوں سے ووٹ حاصل کیا تھا۔ آپ انہیں آلو گوشت پر نہ ٹرخائیں اور عوام پر رحم فرمائیں۔ آپ کو عوام سے کیے ہوئے وعدے اور ریاست مدینہ کے نعرے کو عملی شکل دینی ہے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ داستان بھی نہ ہو گی آپ کی داستانوں میں۔