اختر بھوپالی
اہل کراچی کے لیے کے الیکٹرک کی یلغار کے خلاف جماعت اسلامی کی سخت جدوجہد کسی تعارف کی محتاج نہیں اور خصوصاً امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ محمد نعیم الرحمن کی شعلہ بیانی نے اس تحریک کو دوام بخشا، مگر کے الیکٹرک اپنی روش سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ لوڈشیڈنگ کی مقررہ مقدار کے برخلاف کبھی فالٹ، کبھی مینٹینس اور کبھی Re-Store of Pawer Supply کے نام پر آٹھ سے دس گھنٹے کے بعد جب بجلی بحال ہوتی ہے تو لوڈشیڈنگ کا وقت شروع ہونے والا ہوتا ہے اور یوں صرف جھلک دکھا کر پھر ڈھائی گھنٹے اندھیرے میں ڈال دیا جاتا ہیجب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آٹھ دس گھنٹے بعد بجلی بحال ہوتی ہے تو پھر لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے، مگر یہ تو بجلی بچت مہم پر کارفرما ہیں تا کہ بجلی کی تیاری میں فرنس آئل بچایا جائے، ہمیں ابھی تک یاد ہے کہ برسوں برس قبل جب لوڈشیڈنگ کا نظام متعارف کرایا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ گھریلو صارفین کے لیے نصف شب کے بعد لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، یعنی رات بارہ بجے کے بعد گھروں کی بجلی بحال رہے گی۔ اس شق پر صرف چند عرصے ہی عمل ہوا اور اب یہ حال ہے کہ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں ایک عرصہ دراز سے لوڈشیڈنگ کے اوقات رات گیارہ اور ساڑھے گیارہ بجے شروع ہو کر شب کے ڈیڑھ اور دو بجے تک کے مقرر ہیں اور اس پر باقاعدگی سے عملدرآمد جاری اور ساری ہے۔ اب آنکھیں بند کرنے میں کچھ وقت تو لگے پھر موسم سرما میں تو راتیں لمبی ہوتی ہیں مگر موسم گرما میں ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ اذان کی آواز سے بیدار ہوجاتی ہے اب آدمی دفتروں میں اور بچے اسکولوں میں نہ جھومیں…
تو اس کے ساتھ ہی اس معاہدے کی ایک اور شق بھی یاد کراتے چلیں کہ یہ طے تھا کہ چھٹی والے دن گھروں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی کیوں کہ چھٹی کی وجہ سے دفاتر اور کارخانے بند ہوتے ہیں۔ مگر اب کیا ہفتہ کیا اتوار عوام ہر حال میں خوار۔ اب آتے ہیں بلنگ کے نظام کی طرف جو جدید طرز کا ہے تمام احکامات بذزیعہ کمپیوٹر دیے جاتے ہیں اور کمپیوٹر سے نکلا ہر لفظ ان کے لیے مقدس ہے جس سے انکار کفر کہلاتا ہے۔ بس جی اب تو کمپیوٹر سے بن گیا ہے یہ تو بھرنا ہی پڑے گا۔ کے الیکٹرک کی کارکردگی کا اندازہ ان کے بنائے گئے درجنوں کسٹمر سینٹرز پر موجود سیکڑوں افراد کی روزانہ کی بنیاد پر آمد سے لگایا جاسکتا ہے، کسی کو ڈرا دھمکا کر اور کسی کو تسلی دے کر رخصت کرایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی کاوشوں سے کچھ بہتری تو آئی ہے مگر کے الیکٹرک مختلف بہانوں سے عوام کا خون چوسنے سے باز نہیں آتی۔ برس ہا برس سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ اگر آپ بل بروقت نہیں ادا کریں گے تو وہ رقم سرچارج کے ساتھ اگلے بل میں منتقل کردی جاتی ہے مگر اب سرچارج کی ادائیگی کے باوجود Re-Connection Change (ری کنکشن چارجز) بھی ادا کرنے ہوں گے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم جس آفس میں کام کرتے ہیں وہ شاہراہ فیصل کی قدیم بلڈنگ میں ہے جو ایک عرصے سے قائم ہے اور ہم باقاعدگی سے بل ادا کرتے آرہے ہیں اگر کبھی نہ بھر سکے تو اگلے مہینے سرچارج کے ساتھ ادائیگی ہوجاتی ہے، مگر کبھی ہماری بجلی کٹی نہیں، چوری کنکشن کی وجہ بنے، چناں چہ ہم بل
کے ساتھ نتھی ری کنکشن چارجز کا پرچہ لے کر کے الیکٹرک کے کسٹمر سینٹر جا پہنچے جہاں پہلے ہی پریشان حال لوگوں سے ہال بھرا ہوا تھا۔ پرچی یعنی ٹوکن نکالنے والے حضرات نے ہم سے مدعا معلوم کیا جب ہم نے انہیں ری کنکشن کا بل دکھایا تو بولے کیا آپ کی بجلی کٹی تھی۔ ہمارے انکار پر موصوف نے ٹوکن ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا بیٹھ جائیں آپ کا مسئلہ کائونٹر والے ہی حل کریں گے۔ دیگر افراد کی طرح ہم بھی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ گرچہ پانچ چھ کائونٹر کام کررہے تھے مگر عوام کی نوک جھونک کی وجہ سے تاخیر ہورہی تھی۔ خیر جی ہم بھی اپنے نمبر پر کائونٹر جا پہنچے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ موصوف نے ہم سے بل لیا اور کمپیوٹر سے چھیڑ خانی شروع کردی اور پھر یوں گویا ہوئے کہ آپ نے دو ماہ بل نہیں بھرے اور بل پر موجود بھرے ہوئے بلوں کی ترتیب سے دو ماہ کا اخراج دکھایا تو ہم قائل ہوگئے اور ندامت سے واپس ہولیے۔ مگر ایک پریشانی تھی کہ ایسا کیسے ہوگیا کہ ہم نے دو ماہ کے بل ہی نہ بھرے ہوں، کیوں کہ بلنگ کی ذمے داری ہماری ہے۔ ریکارڈ کی چھان بین سے پتا چلا کہ یہ دونوں بل ہم نے بروقت نہیں بھرے تھے بلکہ اگلے ماہ کے بل کے ساتھ سرچارج سمیت ادا کرچکے ہیں۔ اب ہم نے پھر کمرکس لی اور جا دھمکے کائونٹر پر اور اس نے جو دلیل پیش کی کہ ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اس نے ری کنکشن کی جو تشریح بیان کی تو ہماری عقل دنگ رہ گئی، جب آپ نے بل نہیں بھرا تو آپ ہمارے کمپیوٹر سسٹم سے کٹ گئے اور جب بھر دیا تو آپ پر ری کنکشن فیس واجب ہوگی جس کی تفصیل ہمیں بل پر درج دکھائی جو کچھ یوں تھی۔
NEPRA-CM کی شق (B) کے ضمن میں آپ پر ری کنکشن کی فیس ان کی جارہی ہے۔ جو درج ذیل واجبات کے حساب سے ترتیب دی گئی ہے۔
-1 1000 روپے کے بقایا جات کے لیے 100 روپے
-2 100 سے 5000 روپے کے بقایا جات کے لیے 300 روپے
-3 500 سے 15000 روپے کے بقایا جات کے لیے 900 روپے
-4 15000 سے 100,000 روپے کے بقایا جات کے لیے 2000 روپے
-5 100,000 سے 500,000 روپے کے بقایا جات کے لیے 2500 روپے
-6 500,000 سے زائد روپے کے بقایا جات کے لیے 10,000 روپے
جب اس نے یہ سب کچھ بل پر درج دکھا دیا تو اس سے بحث فضول تھی، پھر اپنا سا منہ لے کر آئے اور سوچ میں پڑ گئے کہ کنکشن نہیں کٹا بل نہ بھرنے پر سسٹم سے کٹ گیا۔ اور جب بل بھر گیا تو ری کنکشن فیس چارج ہوگی جو رواں بل میں جمع کردی گئی ہے یعنی اس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ہمارا ذہن اب تک یہ نہیں تسلیم کرسکا کہ بل نہیں بھرا تو سسٹم سے کٹا اور اگر بھر دیا تو ری کنکشن فیس چارج ہو گی۔ پہلے مختلف حیلے بہانوں سے کے الیکٹرک والوں نے عوام کو لوٹا اب نیپرا کے نام پر لوٹ کھسوٹ شروع کردی۔ پہلے (تانبے) کاپر کے تاروں کی جگہ المونیم کے تار ڈال کر کروڑوں کا تانبہ بیچ کھایا، کس کی اجازت سے اور اس کے حصے دار کون کون تھے اور اب یہ ری کنکشن بھی ایک عجیب منطق ہے۔ کوئی ہمیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ ہم یہ مقدمہ بھی جماعت اسلامی کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ عوام کو کے الیکٹرک کی اس نئی لوٹ مار سے بچائیں۔