ایک طرف اسرائیل فلسطین کے عرب شہروں بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس کی تاریخی اسلامی اور عرب شناخت مٹانے کے لیے طرح طرح کے مکروہ حربے آزما رہا ہے تو دوسری جانب شہر میں قائم فلسطینی ادارے صہیونی ریاست کی مسلط کردہ عبرانیت اور صہیونیت کا پورے عزم کے ساتھ مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
صہیونی کشمکش میں وسائل کی قلت اور مشکلات کے باوجود القدس کے تشخص کے دفاع میں برسرعمل اداروں میں ایک نام جامعہ القدس کا بھی ہے۔
عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق جامعہ القدس بیت المقدس کی ایک بڑی درسگاہوں میں سے ایک ہے مگر یہ ادارہ بھی صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیوں کا شکار ہے۔ چونکہ جامعہ القدس مقبوضہ بیت المقدس کے قلب میں واقع ہے۔ اس لیے یہ ادارہ شہر مقدس کی اسلامی اور عرب شناخت کے دفاع کے لیے جاری کشمکش میں پیش پیش ہے۔
جامعہ القدس کی جانب سے جہاں فلسطینی طلبا کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں وہیں صہیونی ریاست کے جبرو تشدد کا بھی مقابلہ کیا جاتا ہے۔
القدس یونیورسٹی کی وائس چیئرپرسن برائے القدس امور ڈاکٹر صفا ناصر الدین کے مطابق جامعہ کو اسرائیل کی جانب سے درپیش مشکلات کا شکار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت کی جانب سے القدس یونیورسٹی کی ڈگری تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ اس کے باوجود جامعہ القدس اور کئی دوسرے فلسطینی ادارے القدس کے عرب تشخص کے تحفظ کے لیے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے یونیورسٹی کی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ وہ کرائے کے مکانوں میں اپنا نظام چلانے پر مجبورہیں۔
یونیورسٹی کے زیراستعمال ایک پرانی اور بوسیدہ عمارت ممالک کے دور حکومت 1363 کی تعمیر کردہ ہے۔ اسی عمارت میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کے طلبا القدس اسٹڈیز میں تعلیم مکمل کرتے اور سند فراغت حاصل کرتے ہیں۔