آرمی ایکٹ کی منظوری

306

 قومی اسمبلی اور ایوان بالا کے بعد صدر مملکت نے بھی آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر کے اس کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد یہ تینوں بل باقاعدہ قانون کا حصہ بن گئے ہیں۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے متذکرہ ایکٹ میں ترمیم کے بلز کو حکومتی اور اس کے اتحادی ارکان کے علاوہ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر صرف 12منٹ میں کثرت رائے سے منظوری دی ہے۔ دوسری جانب ایوان بالا میں حکومت کی طرف سے جب بل پیش کیا گیا تو یہاں بھی محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے جب کہ جے یو آئی (ف)، نیشنل پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر اس بل کے خلاف احتجاج کیا تاہم ان کے شور شرابے کے باوجود بل کو یہاں بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ ان بلوں کی منظوری کے بعد وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کرسکتے ہیں۔ ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا۔ آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدرمملکت کریں گے۔ ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔ علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔ یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کو مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری کیے گئے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال 28 نومبر کو اس کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کا حکم دیا تھا۔
آرمی ایکٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری جہاں روٹین کی ایک قانونی کارروائی اور پارلیمنٹ کا مینڈیٹ ہے وہاں اس سے بڑھ کر جو سوال سوشل میڈیا پر تواتر سے اٹھایا جارہا ہے وہ اس ایکٹ کی منظوری میں اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی بظاہر غیر مشروط تائید ہے ورنہ حکومتی اتحاد کے لیے اس بل کی منظوری ناممکن تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مجوزہ بل کی حمایت پر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی اجلاس میں کھل کر اختلافات کا اظہار کیا گیا جس پر خواجہ آصف نے واضح کیا کہ مسلم لیگ(ن) نے اس بل کی حمایت کا فیصلہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی مرضی اور ہدایت سے کیا ہے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ(ن) کی آرمی ایکٹ کی حمایت کی اب تک کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے البتہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اس بل کی حمایت میں یہ دور کی کوڑی لاتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کی کوششوں ہی سے حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں لانے پر مجبور ہوئی ہے جو اصل میں جمہوریت اور پارلیمان کی مشترکہ فتح ہے۔ اسی تسلسل میں اس بل کی غیر متوقع طور پر حمایت کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان بھی ان زریں خیالات کا اظہار کر چکے ہیں کہ آرمی ایکٹ کو پارلیمنٹ میں لانے سے اے این پی کے موقف کی جیت ہوئی ہے حالانکہ 2018 کے انتخابات پر اے این پی کے تحفظات ہیں لیکن اگر ہر معاملہ پارلیمنٹ میں جارہا ہے تو یہ جمہوریت کی جیت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح حسب توقع حکومتی بینچوں نے بھی اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں کی جانب سے اس بل کی حمایت کے اس فیصلے کوجہاں تاریخی قراردیا ہے وہاں اس سے یہ بات بھی ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ پاکستانی سیاست میں اصول، عوام کی بالادستی، ووٹ کو عزت دو اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کے خوشنما نعرے محض بیچارے عوام کو بہکانے اور بہلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اصل میں یہ سارا ڈراما عوام کے نام پر بعض شخصی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیے رچایا جاتا ہے جس کی تازہ مثال زیر بحث ایکٹ کی حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کی جانب سے راتوں رات منظوری ہے۔ دریں اثناء نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے آرمی ایکٹ ترمیمی بلز کے حق میں ووٹ دینے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی تین بڑی جماعتوں نے جمہوریت کو پارلیمنٹ میں دفن کردیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی مخالفت کر رہے تھے اب اس میں نیوی، ائر فورس اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدوں کو بھی شامل کردیا گیا ہے جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے۔ اس بل کی منظوری میں حکومتی اتحاد اور کسی حد تک اپوزیشن کی تین جماعتوں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن) اور اے این پی کی ’’مجبوری‘‘ اور نیشنل پارٹی اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی مخالفت کے ’’فلسفے‘‘ کو تو سمجھا جاسکتا ہے البتہ جمعیت(ف) اور جماعت اسلامی کی مخالفت کے فیصلے کو سیاسی مبصرین ان دونوں جماعتوں کے ماضی کے تناظر میں بڑی حیرانگی اور دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔