قاضی صاحبؒ کا مجاہدانہ جمہوری کردار

253

 جانے والے چلے جاتے ہیں ان کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ قاضی حسین احمدؒ کو بھی ہم سے بچھڑے کئی سال ہوگئے لیکن جب 6 جنوری آتی ہے تو راہ عدم کا مسافر بے اختیار یاد آجاتا ہے، اور قاضی صاحب کا مجاہدانہ جمہوری کردار دل میں یادوں کی ایک شمع سی فروزاں کردیتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو اگرچہ قاضی صاحب کے میاں نواز شریف سے شدید اختلافات تھے لیکن انہوں نے اس غاصبانہ قبضے کی کبھی تائید نہیں کی اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف نہایت دلیرانہ موقف اختیار کیا۔ حالاں کہ وہ زمانہ تھا جب لوگ نواز حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں بانٹ رہے تھے اور میڈیا جنرل پرویز مشرف کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کررہا تھا۔ ابھی فوجی حکومت کا ہنی مون جاری تھا کہ امریکا میں نائن الیون کا واقعہ پیش آگیا اور امریکانے اسے بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پاکستان سے کہا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ امریکا کے ساتھ ہے یا اس کے دشمنوں کے ساتھ؟ جنرل پرویز مشرف تو امریکی وزیر خارجہ کی ایک ٹیلیفون کال ہی پر ڈھیر ہوگئے لیکن انہوں نے قومی سطح پر سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے جہاں قوم سے خطاب کیا وہیں سیاستدانوں کا اجلاس طلب کرکے ان کے سامنے امریکا کی حمایت کرنے اور اسے افغانستان کے خلاف پاکستان کی فضائی و زمینی سہولتیں دینے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کی۔ جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ملک کو آج جتنے شدید بحران کا سامنا ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا اور انہوں نے پاکستان کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے امریکا کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ مقصد اس اجلاس کا یہ تھا کہ اپنے فیصلے کے حق میں سیاستدانوں کی تائید حاصل کی جائے اور اسے قومی اتفاق رائے کا نام دیا جائے۔ اجلاس میں موجود
سیاسی رہنمائوں نے بزبانِ خاموش ان سے اتفاق کیا، صرف قاضی حسین احمد نے ان سے کہا کہ جب آپ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کو شدید بحران کا سامنا ہے تو آپ نے یہ سارا بوجھ اپنے کاندھوں پر کیوں اُٹھا رکھا ہے۔ موجودہ حالات میں بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے کی عبوری سول حکومت تشکیل دے کر فوج کو اپنی ذمے داری پوری کرنے کے لیے فارغ کردیں اور ایک آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے تحت منصفانہ اور شفاف انتخابات کراکے ایک منتخب جمہوری حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کا موقع فراہم کریں، اس طرح پوری قوم اس بحران کا زیادہ اعتماد سے مقابلہ کرسکتی ہے۔ قاضی صاحب کی یہ تجویز سنتے ہی جنرل پرویز مشرف کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور انہوں نے نہایت جلد بازی سے اجلاس برخاست کردیا وہ تو ایک منتخب سول حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے اور تادیر حکومت کرنا چاہتے تھے وہ قاضی صاحب کی تجویز کیسے قبول کرسکتے تھے۔ امریکا کے لیے بھی یہ تجویز قابل قبول نہ تھی۔
بہرکیف حالات کے تناظر میں قاضی صاحب کا جمہوری عمل کی بحالی پر اصرار جاری رہا۔ ایک سیمینار میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ (مرحوم) اور ایک سینئر وکیل ڈاکٹر فاروق حسن بار ایٹ لا نے بھی قاضی صاحب کی ہمنوائی میں واضح کیا کہ آئین کی رو سے جنرل پرویز مشرف کی سول حکومت کے خلاف کارروائی بھی غیر آئینی ہے اور چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے ازخود صدر بننا بھی غیر آئینی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جب یہ دیکھا کہ ان پر برسرِ عام تنقید شروع ہوگئی ہے اور یہ ’’آگ‘‘ قاضی صاحب کی بھڑکائی ہوئی ہے تو انہوں نے قاضی صاحب کو گرفتار کرکے تاندہ ڈیم ریسٹ ہائوس میں نظر بند کردیا جو کوہاٹ سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر تھا۔ وہاں قاضی صاحب کی سیکورٹی اور نگرانی کے لیے ایف سی پولیس، اسپیشل پولیس، ایف بی آئی اور جیل کے عملے پر مشتمل ساٹھ افراد تعینات تھے۔ ریسٹ ہائوس کی نگرانی پر مامور تمام افراد ان کے مقتدی بن گئے۔ قاضی صاحب ہر نماز کے بعد نہایت مختصر درس قرآن و حدیث بھی دیتے۔ جنرل پرویز مشرف تو اس دور افتادہ ریسٹ ہائوس میں انہیں تنہا رکھنا چاہتے تھے لیکن قاضی صاحب کی پُرکشش شخصیت نے وہاں ایک نیا جہان آباد کردیا تھا۔ جس میں ہر شخص ان کا مداح نظر آتا تھا۔ یہاں انہیں فرصت کے وہ لمحات میسر آئے جس میں انہوں نے اپنی قوت تحریر کو آزمایا اور پاکستان کو درپیش حالات کے بارے میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے جو باقاعدگی سے اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ قاضی صاحب کو کچھ عرصے کے لیے فاٹا ریسٹ ہائوس پشاور میں بھی رکھا گیا یہاں بھی انہوں نے مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسیری کے دوران قاضی صاحب کو دل کی تکلیف ہوگئی۔ چناں چہ کچھ عرصہ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں اور بعدازاں ڈاکٹر اسپتال لاہور میں زیر علاج رہے۔ قاضی صاحب 4 نومبر 2001ء کو گرفتار کیے گئے تھے اور 27 فروری 2002ء کو رہائی ملی۔
جنرل پرویز مشرف نے قاضی صاحب پر الزام لگایا تھا کہ وہ فوج میں اختلاف پیدا کررہے ہیں۔ اس کا جواب قاضی صاحب نے یہ دیا کہ ’’ہم فوج کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے اور اسے سیاست میں اُلجھانے کے خلاف ہیں۔ فوج جب سیاست میں آتی ہے تو اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ فوج کے تمام ارکان کو ایک سیاسی فکر پر جمع کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے فوج کو سیاست سے دور رکھنا ہر محب وطن حکومت کا فرض ہے۔ فوج کے ارکان بھی آئین کی پاسداری کرنے اور سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو قاضی صاحب کا یہ جواب بہت ناگوار گزرا۔ عدالت عظمیٰ نے جنرل پرویز مشرف کو اکتوبر 2002ء تک چیف ایگزیکٹو کے طور پر کام کرنے کی مہلت دی تھی وہ اس بات کے پابند تھے کہ اکتوبر 2002ء میں عام انتخابات کراکے اقتدار منتخب حکومت کو منتقل کردیں۔ لیکن انہوں نے چالاکی یہ کی کہ انتخابات سے پہلے صدارتی ریفرنڈم کا ڈراما رچا کر خود کو صدر منتخب کروالیا اور انتخابات میں بھی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرکے پارلیمنٹ کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھ دیا۔ ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ نے بھی حصہ لیا تھا جسے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ قاضی صاحب متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے صدر اور مولانا فضل الرحمن سیکرٹری جنرل تھے۔ قاضی صاحب کی کوشش تھی کہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جنرل پرویز مشرف پر سیاسی دبائو بڑھایا جائے اور انہیں وردی اُتارنے اور صدارت سے دستکش ہونے پر مجبور کیا جائے لیکن مولانا فضل الرحمن نے خفیہ جنرل پرویز مشرف سے اپنی لائن فٹ کرلی اور قاضی صاحب کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ بالآخر قاضی صاحب مایوس ہو کر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔