پاکستان اپنے وزن کا اندازہ کرے

505

وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران، امریکا اور ایران میں صلح، صفائی کروائیںگے۔ وہ اس سے پہلے بھی ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کرانے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ یہ ارادے بہت مستحسن اور اونچے ہیں۔ لیکن اچھا تھا کہ عمران خان اور ان کی حکومت اپنے وزن کا اندازہ کرلیتی۔ ان تنازعات کے حل میں پاکستان کا کوئی کردار ممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی عمران خان نے سعودی عرب کے دورے کے بعد فخریہ اعلان کیا تھا کہ سودی عرب نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ ایران سے تنازع میں اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن سعودی وزیر مملکت عادل الجبیر کے انٹرویو کی وڈیو موجود ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے مصالحتی کردار کے بارے میں ایک سوال پر کہا تھا کہ لوگ ایسے منصوبے لے کر ہمارے پاس آتے رہتے ہیں جس کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے، یہ لوگ اپنی مقامی سیاست کے حوالے سے ایسی تجاویز لے کر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران عرب تنازع کئی صدیوں پرانا ہے جو عرب عجم تنازع کہلاتا ہے۔ فریقین میں سے کوئی بھی اس تنازع کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ ان اختلافات کو اپنی بقا اور اہمیت میں اضافے کے لیے مزید ہوا دیتا ہے۔ یہ تنازع درحقیقت شیعہ سنی یا شیعہ وہابی رنگ اختیار کرچکا ہے اور دو ممالک کی نہیں دو مسالک کی جنگ بن گیا ہے۔ 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد آیت اللہ خمینی نے اعلان کیا تھا کہ یہ انقلاب برآمد کیا جائے گا اور دوسرے ممالک میں بھی پھیلایا جائے گا۔ اس پر عرب ممالک خاص طور پر چوکنا ہوگئے تھے گو کہ کئی عرب ممالک میں اہل تشیع کی قابل ذکر تعداد موجود ہے مثلاً عراق میں شیعہ سنی دونوں کو اکثریت کا دعویٰ ہے تاہم ہر فریق کی اکثریت بہت معمولی ہے۔ عراقی کرد اپنے آپ کو شیعہ سنی میں تقسیم کرنے کے بجائے خود کو سیکولر قرار دیتے ہیں۔ عراق کو مسلک کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کرنے کا امریکی منصوبہ بہت پرانا ہے اور اس کی ایک کوشش بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد بھی نظر آئی اور سنی اکثریتی علاقوں میں جشن کی تصاویر امریکی ذرائع سے پیش کی گئیں۔ دوسری طرف قاسم سلیمانی کے جلوس جنازہ میں امریکا کے خلاف کم اور مسلکی مخالفین کے خلاف زیادہ نعرے لگائے گئے۔ ایسی صورت حال میں اس کا دور دور تک امکان نہیں کہ ایران اور سعودی عرب اپنے دیرینہ اختلافات کو ایک طرف رکھ دیں گے۔ ایسے میں پاکستان محض دعوے ہی کرسکتا ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ مسلمانوں کی طاقت اس بری طرح تقسیم ہو چکی ہے کہ ایک دوسرے کو مسلمان ہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ دشمن مسلمانوں کو تباہ کرتے ہوئے شیعہ سنی، وہابی، یا اہلحدیث کا امتیاز نہیں برتے گا۔ تاریخ میں اس کا مشاہدہ بار بار ہوچکا ہے۔ ہلاکو کو بغداد پر حملے کی دعوت خواہ کسی نے دی ہو،تاتاری حملہ آوروں نے قتل عام کرتے ہوئے کسی کا مسلک نہیں پوچھا۔ قریب کی تاریخ میں میر جعفر اور میر صادق کی مثال ہے جنہوں نے انگریز حملہ آوروں کی مدد کی لیکن زد میں سبھی آئے۔ امریکا اگر ایک طرف افغانستان میں سنیوں کا خون بہا رہا ہے تو دوسری طرف عراق میں شیعوں کا قتل بھی کررہا ہے۔ شام میں تو امریکا اور روس دونوں ہی ٹوٹے پڑے ہیں حالاں کہ حکمرانوں کا تعلق نصیری فرقے سے ہے۔ ایران اور عراق کی 8سالہ طویل جنگ کے خاتمے اور مصالحت کرانے کی کوشش صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی کی تھی جن کا بین الاقوامی سطح پر ایک اہم کردار بھی تھا مگر جنگ اس وقت بند ہوئی جب دونوں ممالک تھک چکے تھے۔ اب عمران خان اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایران، سعودی عرب اور امریکا کے دورے پر بھیج رہے ہیں۔ کیا اس کے لیے کوئی ہوم ورک بھی کیا ہے یا یہ بھی ایک مشق فضول ہوگی؟ متحارب ممالک میں صلح کرانے کی کوشش بہت اچھی بات ہے لیکن عمران خان اپنے ملک میں یہی کام کیوں نہیں کرتے۔ یہاں تو وہ جلتی پر تیل چھڑکتے رہتے ہیں ۔