یوکرین کے طیارے کی تباہی

278

ایران نے یوکرین کے طیارے کو غلطی سے مار گرانے کا اعتراف کرلیا ہے۔ یوکرین کا طیارہ رواں ہفتے کے اوائل میں یہ طیارہ اس لیے گرایا گیا کہ یہ فوجی تنصیبات کے قریب پرواز کررہا تھا۔ غیر ارادی طور پر نشانہ بن گیا اس پر ایرانی صدر حسن روحانی نے معذرت کی ہے لیکن وزیرخارجہ جواد ظریف نے کمال ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے امریکی مہم جوئی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔یوکرین کے صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران حادثے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچائے اور معاوضہ ادا کرے۔ لیکن کیا یہ محض معذرت امریکا پر الزام عاید کرنے اور غیر ارادی طور پر طیارے کی تباہی کا معاملہ ہے۔ افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا امتحان تو ہوتا ہی جنگی حالات میں ہے جب جنگ کی کیفیت ہو اس دوران دوست، دشمن کی شناخت جنگی طیارے اور مسافر طیارے میں فرق اور رفتار وغیرہ سب کا اندازا چند لمحوں میں ہوجاتا ہے اگر کوئی فوجی یا کوئی سیکورٹی ایجنسی کا فرد یہ معمولی سی بات نہیں جانتا تو اسے ایسی جگہ کام کرنے کا حق نہیں۔ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ امریکا سے کشیدگی کے سبب ایرانی فضائیہ اور فوجی مکمل تیاری کی کیفیت میں ہیں انہوں نے اپنی فضائی حدود اگر کھلی رکھی تھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ یوکرین کا طیارہ ایرانی فضائی حدود میں داخل ہورہا ہے دنیا بھر میں جنگی صورتحال میں فضائی حدود کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کو مطلع کردیا جاتا ہے کہ کب اور کہاں سے ان کے طیارے گزر سکتے ہیں۔ یقیناً ایران معذرت سے آگے بڑھ کر معاوضہ بھی ادا کرے گا اور ذمے داروں کو بھی کٹہرے میں لائے گا۔ لیکن اس سانحے سے ایران بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو غیر ذمے دار قرار پاتے ہیں ان غیر ذمے دار ممالک میں امریکا سر فہرست ہے۔ امریکیوں نے عراق میں صحافیوں اور شہریوں کو قتل کیا۔ صحافی فوٹو گرافر نے اپنا کیمرہ نکالا تو امریکی فوجیوں نے اسے بھون کر رکھ دیا۔ ان کا جواب بھی محض معذرت تھا۔ پاکستانی فوج بھی اپنے طیارے کو نشانہ بناچکی ہے۔ امریکی تو اس معاملے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں وہ تو منصوبہ بندی کے تحت بھی اپنے لوگوں کو مارتے ہیں اور اپنے قیمتی اثاثے تباہ کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں ایران کی طرح اخلاقی جرأت نہیں اس لیے اس کا اعتراف نہیں کرتے جیسے 9//11 ٹوئن ٹاورز کی تباہی، سب کچھ ثابت ہوچکا کہ کوئی طیارہ نہیں تھا بلکہ ٹی وی چینلز کو ویڈیو بناکر دیدی گئی تھی اور وہی بار بار چلا چلاکر لوگوں کے ذہن میں واضح کردیا گیا کہ طیارے ہی ٹکرائے ہیں جبکہ سائنسدانوں نے ثابت کردیا کہ طیارہ کی کنکریٹ سے ٹکرا کر عمارت کے پار نہیں جاسکتا بلکہ یہ تو پرندے سے ٹکراکر تباہ ہونے والی چیز ہے۔ جہاں تک ایران کی جانب سے یہ الزام ہے کہ یہ امریکا کی مہم جوئی کا حصہ ہے تو ایک اعتبار سے درست بات ہے لیکن اس مہم جوئی پر گھبراہٹ میں عام مسافر طیارے کو نشانہ بنایا جانا کسی طور بھی پیشہ ورانہ عمل نہیں ہے۔ یہی بات امریکا اور ایران کے سمجھنے کی ہے کہ آپ اب ہم اور بارود کی زباں میں بات نہ کریں صرف سفارت اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کی اصلاح کریں۔ جنگ کے ذریعے مسائل حل ہونے کے حوالے سے امریکا سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔ دنیا بھر میں اس کو طاقت کے استعمال سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔