تبدیلی سرکار، جنہیں بدعنوان سمجھتی تھی، ان کے ساتھ مل کر قانون سازی کر رہی ہے، بس یہی اصل تبدیلی ہے، لیکن انتخابات میں تو ووٹ کسی اور تبدیلی کے لیے دیے گئے تھے کہ تحریک انصاف اپنے دعوے کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرے گی، ماضی کی حکومتوں کی طرح فی لیٹر ناجائز ٹیکس نہیں لے گی۔ آٹا بھی سستا ملے گا، دال، چینی، گھی، تیل سب اشیاء ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں گی، کیونکہ قیمتیں اس وقت بڑھتی ہیں جب کرپشن ہو، اور حکمران کرپٹ ہوں، لیکن آج دعویٰ کرنے والے منہ چھپا رہے ہیں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے کتنا مزید بوجھ ڈال دیا ہے؟ حکمران جماعت سے جب اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو پچھلی حکومت کے گزرے ہوئے پانچ برس کا راگ الاپتے ہیں اور چور چور ڈاکو ڈاکو کرنے کے سوا ان کے پاس سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ ملک کے پڑھے لکھے اور باصلاحیت نوجوان نوکریوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور ایک کروڑنوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں یہ کہاں گئیں جو اقتدار میں آنے کے بعد نوجوانوں کو ملنی تھیں؟ عوام کو جو خواب دکھائے گئے تھے انہیں پورا کرنا ہوگا کون چور ہے اور کون ڈاکو ہے اس کا فیصلہ عدالتوں کو کرنے دیں…
یہ بات تو سچ ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تب معلوم ہوتا ہے کہ ملک کن مسائل کا سامنا کررہا ہے پچھلی حکومتوں پر نااہلی اور معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا الزام تو لگایا لیکن آج اقتدار ملا تو پڑوسی ملک سے مزاکرات کی بھیک بھی مانگی اور آئی ایم ایف سے قرضہ بھی لیا پھر بھی خودکشی نہیں کی۔ ہم یہ بات سچ تسلیم کر لیتے ہیں کہ انتخابات میں واقعی عوام نے آپ کو ووٹ دیا، آپ پر اعتماد کیا تھا آپ پر بھروسا کیا تھا اور انتخابات میں دو پارٹی نظام کو ختم کرکے عوام نے آپ کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب کیا، بڑے منصب پر بٹھایا، ایک ایسا اختیار دیا کہ جو پورے ملک میں، پورے بائیس کروڑ عوام میں سے صرف ایک شخص کے پاس ہوتا ہے۔ ووٹ کے ذریعے آپ کو ریاست کے تین ستون، عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں سے سب سے بڑے آئینی ادارے پارلیمنٹ کے ذریعے انتظامیہ کا سربراہ بنایا، آپ نے عوام کو جو امیدیں دلائی تھیں امید بھی تھی کہ آپ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ ترتیب دیں گے لوگوں کو بجلی کے بل جلانے نہیں پڑیں گے اور ملکی معیشت بھی اپنی ڈگر پر آجائے گی… لیکن ڈیڑھ سال ہی میں آپ نے یہ کردیا، آپ نے نیب کے پر کاٹ دیے، کشمیر پر خاموشی اختیار کرلی، پیپلزپارٹی، قاف، میم، الف اور نون لیگ کے سب لوٹے جمع کرلیے، اور کیا کچھ نہیں کیا؟ ایک ڈیڑھ سال میں اتنے سوال چھوڑ دیے ہیں کہ جواب دینے کے لیے آپ کو کئی زندگیاں چاہئیں۔
جنرل مشرف نے آپ کو وزارت عظمیٰ دینا چاہی اور کہا کہ کتنے جیتے ہوئے گھوڑے چاہئیں سب مل جائیں گے، جناب نے جواب دیا تھا کہ یہ سب کرپٹ ہیں انہیں نہیں لے سکتا پھر پانچ سات سال بعد وہی سب کچھ کرلیا جو مشرف کے سامنے انکار کیا تھا آپ کیسے حکمران ہیں اور کیسے کپتان ہیں کہ شائقین کے مطالبے پر ٹیم اور فیلڈنگ سیٹ کرتے ہیں؟ کبھی کسی کپتان نے شائقین کے کہنے پر ایسا کیا ہو تو بتائیں، اس ملک میں ائر مارشل نورخان کا ایک نام تھا اور ہے، آپ کو اُن ہی نے سلیکٹ کیا تھا اور کپتان بنایا تھا، حکومت سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا کہ جناب نے اقرباء پروی نہیں کی اور ماجد خان کو باہر بٹھا دیا تھا، کہ کھیل نہیں سکتے۔ سلیکشن کے معیار پر پورا نہیں اترتے لیکن حکومت میں آنے کے بعد کیا کیا ہے؟ اف خدایا کیسی سلیکشن کی ہے، ایک سے بڑھ ایک، کابینہ میں کتنے ہوں گے جنہیں یہ خوف ستائے رکھتا ہے کہ کہیں ان کی ویڈیو ہی لیک نہ ہوجائے، کتنے ہیں جو خود کو کلیئر سمجھتے تھے مگر پھنس گئے ہیں آج اگر نور خان دوبارہ آجائیں تو کبھی آپ کو دوبارہ سلیکٹ نہ کریں…
معلوم نہیں جاتے جاتے آصف سعید کھوسہ صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ چلو سویلین بالادستی کا امتحان ہی لے لیا جائے سویلین بالادستی سے متعلق ہمارے نعروں کو بے نقاب کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے ایک رکن اسمبلی نے بتایا ہے کہ حکم ہے جو کہا جارہا ہے وہ کردو، سوال نہ کرو، لہٰذا ووٹ دینا ہے قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی خوش ہے کہ اب ووٹ دے دیا ہے لہٰذا سندھ حکومت خطرے کے نشان سے باہر نکل آئی ہے، طغیانی اور زور ٹوٹ چکا ہے اور اس کا رخ بھی بدل گیا ہے اب کوئی نہیں پوچھ سکے گا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کتنے غیر مستحق، مستحق بن کر رقم لیتے رہے لیکن ان سے توجہ دینی چاہیے کہ سندھ میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ کوئی عمل قابل تعریف نہیں کہ خاموشی سے دیکھتے چلے جائو اور گنتی کرتے چلے جائو کہ آج کتنے کتوں نے انسانوں کو کاٹا ہے اور نہ یہ سوچ درست ہے کہ انسان مرتا ہے تو مرجائے مگر کتا بچ جائے کہ کہیں کوئی این جی اوز ناراض نہ ہوجائیں۔