اسلام اور پاکستان

499

جدون ادیب
اسلام پاکستان کی بنیاد ہے۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ قیام پاکستان انسانی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ حیرت انگیز طور پر مختلف اقوام، قبیلوں، زبانوں، ذات پات، نسل اور فرقوں میں بٹے لوگ ایک کلمے کی بنیاد پر متحد ہوئے اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت حاصل کی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ موجودہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پتا تھا کہ ان کے علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے اور پاکستان کی حمایت پر انہیں ہندوئوں اور سکھوں کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وہ پاکستان کی اعلانیہ اور پُرجوش حمایت سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے پاکستان کے لیے نسبتاً زیادہ قربانیاں دیں۔ اقوام عالم میں اس طرح کی بے نظیر جدوجہد کی کوئی مثال نہیں ملتی۔پاکستان مسلمانوں کے سب سے مقدس دن یعنی 27 رمضان المبارک کی بابرکت رات میں قائم ہوا۔ یہ بھی پاکستان کے اسلام سے گہرے تعلق کی دلیل ہے۔ سورئہ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ تمام نعمتیں پاکستان میں موجود ہیں۔ اگر لوگ پاکستان کو سورئہ رحمن کی تفسیر کہتے ہیں وہ غلط نہیں کہتے۔ پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کا اسلام سے گہرا اور جذباتی تعلق ہے۔ خلافت کے خلاف سازشوں پر سب سے زیادہ موثر احتجاج برصغیر پاک و ہند میں ہوا اور خلافت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں نے پاکستان کو اپنی امنگوں اور خواہشات کا مرکز سمجھ کر دیوانہ وار اس کے قیام کے لیے جدوجہد کی۔ بدقسمتی سے پاکستان قائم تو ہوگیا لیکن پاکستان میں اسلام کا عملاً نفاذ نہیں کیا جاسکا۔ اس لیے پاکستان بننے کے بعد کلمے کی بنیاد پر متحد ہونے والے مسلمان اپنا اتحاد برقرار نہ رکھ سکے اور قومیت کی بنیاد پر بنگلادیش قائم ہوگیا اور اب وطن عزیز عصبیت اور تعصب کا شکار ہے۔
پاکستان ہندوستان بنے تو ہندوستان نے ملک سے جاگیرداری کا نظام ختم کردیا۔ پھر انگریزوں سے ملنے والی جائدادیں حکومت نے واپس لے لیں۔ مشرقی پاکستان (بنگلادیش) میں بھی اس قانون پر عمل ہوا مگر مغربی پاکستان (یعنی موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان) میں جاگیرداری نظام قائم رہا۔ وہ لوگ جنہوں نے انگریزوں کی وفا میں جاگیریں حاصل کی تھیں، پاکستان بننے کے بعد بھی عام آدمی پر حکومت کرنے لگے اور آج بھی سیاسی اجارہ داری انہی خاندانوں کو حاصل ہے۔ یہ وہ سب سے بڑا نقصان ہے جو پاکستان کو اُٹھانا پڑا۔ جس کے بطن سے ان گنت خرابیاں پیدا ہوئیں اور جس کا خمیازہ آج تک عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر اس میں عملاً اسلام نافذ نہ ہوسکا، کیوں کہ یہی جاگیردار طبقہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنا، تا کہ اپنی حکمرانی برقرار رکھ سکے اور اسلام کا نفاذ نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑا۔ پاکستان اسلام کی آزمائش گاہ تھی مگر اسے محروم کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے اندر انتہا پسند عناصر مضبوط اور توانا ہوئے اور انہوں نے اسلام کے نام پر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹیں اور اپنے مفاد کے لیے اسلام اور پاکستان دونوں کا سودا کیا اگر پاکستان میں اسلام کا عملاً نفاذ عمل میں لایا جاتا تو یہ عناصر کبھی تقویت نہیں پکڑ سکتے تھے۔ اسلام کو دنیا بھر میں فوقیت اور برتری حاصل ہے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ آج اگر انتہا پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے تو وہ اسلام کے عملاً نفاذ سے، جزوی اور جبری اسلام سے مسلمانوں کا چہرہ مسخ کیا جارہا ہے۔ اسلام دنیا میں تہذیب، اخلاقیات، امن، رواداری اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے اور یہی اس کی بنیادی پہچان ہے۔ اسلام کا ناتا دہشت گردی سے جوڑنا کسی حال میں درست نہیں ہے۔ وہ مسلح گروہ جو اسلام کے نام پر مسلح کارروائیاں کررہے ہیں، خود متعدل اسلام پسند حلقے ان کو سختی سے مسترد کرچکے ہیں۔ اسلام کے کچھ بنیادی اصول انتہا پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔ مثلاً:
٭ جہاد کا اعلان مملکت کرسکتی ہے کوئی شخص نہیں، لہٰذا جہاد کے نام پر جو فساد برپا ہے اس کا تعلق اسلام سے نہیں ہے۔
٭ اسلام جبری طور پر قبول اسلام نہیں کرتا۔ نہ کسی لالچ میں یا کسی خاص مقصد کے تحت قبول اسلام کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
٭ اسلامی تعلیمات کے مطابق حالت جنگ (جہاد) میں بھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو مارنے کی اجازت نہیں اور ہتھیار ڈال دینے والوں کو بھی ہلاک نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ جنگ مملکت کرسکتی ہے کوئی گروہ نہیں۔
٭ اسلام غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد میں مکمل آزادی دینے کی تعلیم دیتا ہے اور ان کی جان، مال و اسباب اور گھر بار کی حفاظت بھی اسلام کے ذمے ہے۔
٭ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس بنا پر اسلام کسی کے مذہبی عقائد کی ادائیگی پر زور زبردستی کا درس نہیں دیتا۔
٭ عورت کو معاشرے میں شناخت دینے والا سب سے پہلا مذہب اسلام ہے۔ اسلام سے پہلے معاشرے میں عورت کی جس طرح تذلیل کی جاتی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دنیا کے کسی مذہب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں، جو اسلام دیتا ہے۔
٭اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جتنی بھی تنظیمیں کام کررہی ہیں ان کا محور اسلامی تعلیمات ہیں۔ خواہ وہ اقوام متحدہ ہو یا اس کے ذیلی ادارے ہوں یا کوئی بھی تنظیم ہو سب کے اچھے مقاصد کا ماخذ اسلام ہے۔
٭ اسلام میں مسلح جدوجہد یا خودکش حملوں کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھا جائے اور اس کو عملاً کسی ایک مملکت میں نافذ کیا جائے تو اس کے مثبت اثرات سے پوری دنیا مستفید ہوگی کیوں کہ اسلام ہمسایہ ممالک کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کا درس دیتا ہے، اسلام دنیا میں امن کا داعی ہے، اسلام دنیا کا ایک سیدھا اور آسان مذہب ہے، اس کی غلط تشریح کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام ہتھیاروں کے پھیلائو کے خلاف ہے، انسان کو جتنے حقوق اسلام دیتا ہے اتنے حقوق دنیا کا کوئی مذہب اپنے ماننے والوں کو نہیں دیتا۔ مغرب میں اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کیوں کہ تمام مخالفتوں اور لالچ و ترغیبات کے باوجود اسلام دنیا میں نہایت تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ اس معاملے میں مہذب اور روشن خیال معاشرے انتہا پسندی اور تنگ نظری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر موجود انتہا پسند طبقے کو اسلام کا چہرہ قرار دیا جارہا ہے۔

جدون ادیب
اصل میں اسلام نہ تو انتہا پسندی کا نام ہے اور نہ روشن خیالی کے نام پر بے حیائی کا… اسلام کا اصل چہرہ ان دونوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور انتہا پسندوں نے اسلام کا ٹھیکا لے رکھا ہے، نہ وہ اسلام کے ٹھیکے دار بننے کی کوششوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ معتدل سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو آگے بڑھناہوگا۔ اگر آپ پاکستان یا کسی اسلامی ملک کے شہری ہیں تو اس پر بھی آپ کو فخر ہونا چاہیے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ جہاں تک ممکن ہوسکے اسلام کی تبلیغ کریں۔ لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھائیں، اگر آج دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کے جتنے بھی اقدام ہورہے ہیں، ہمارے اسلاف وہ اپنے مملکتوں میں رائج کرچکے ہیں۔ تعلیم کی دوری کی وجہ سے تھوڑی پستی میں جاگرے ہیں مگر بحیثیت مسلمان ہمیں دوسرے انسانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اسلام کے رکھوالے اور اسلام کے پیروکار اسلام کے صحیح چہرے کو پیش کرکے مغرب کے سیاہ پروپیگنڈے کا توڑ کرسکتے ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانی اسلام کے اصل سفیر ہیں۔ وہ نہ صرف اسلام کی صحیح تبلیغ اور تشریح پیش کرسکتے ہیں بلکہ پاکستان میں حقیقی اسلام کے نفاذ کی کوششوں کے سرخیل بن سکتے ہیں۔ اس طرح ساری دنیا کو اسلام کا حقیقی چہرہ دکھا سکتے ہیں بلکہ انتہا پسندوں کو شکست فاش دی جاسکتی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی ذمے داری نہیں ہے ہر شخص کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔