مشاورتی کونسل کا انعقاد

135

احمدی بیگم

حلقہ خواتین جماعت اسلامی ضلع ملتان کے زیراہتمام پروقار تقریب منعقد کی گئی۔ شہر بھر کی باشعور خواتین جن میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، وکلاء، صحافی، شاعر و ادیب شامل تھیں۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ سابقہ ناظمہ ضلع صدر حریم ادب محترمہ لالہ رخ نے موثر درس قرآن دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہنا زندگی میں خیر لانے کا باعث بنتا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں پر غیر جانبداری کا رویہ اختیار کرنا صاحب بصیرت لوگوں کا شیوہ نہیں۔ مسلم معاشرے نظام کی اصلاح کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ غیر جانبداری تو مغرب کا نعرہ ہے۔
اس موقع پر رفیعہ فاطمہ صاحبہ رکن مرکزی شوریٰ پروگرام کی کنوینر نے مشاورتی کونسل کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کا حق ادا نہں ہو سکا۔ ہمیں اپنی نسلوں کی بہت فکر ہے جو اغیار کی راہوں پر بہت دور نکلتی چلی جارہی ہیں۔ اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ یاد نہیں رہا۔ مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور تعمیر کردار اور تطہیر افکار کی بات کی۔ اس فورم پر ہم نے معاشرے کے پراثر اور دانشور حلقہ کو اس لیے اکٹھا کیا ہے کہ اصلاح احوال کی متعین شکل نکالی جا سکے۔ معروف شاعرہ محترمہ کلثوم زہرا صاحبہ کو جو کہ سابقہ کونسلر بھی ہیں پر اثر کلام کے ذریعے حاضرین کے دل موہ لیے۔
پرنسپل جامعۃ المحصنات ملتان محترمہ فوزیہ سلیمی صاحبہ نے پرمغز تقریر کے ذریعے سامعین کے دل و دماغ اپنی گرفت میں لے لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ پی ٹی آئی انصاف کا نعرہ لے کر اٹھی اور لوگوں کی توجہات سمیٹیں جماعت اسلامی اپنے پروگرام کو عوامی زبان میں بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اسلامی نظام کے مطلوبہ فوائد و ثمرات کو بیان کرنا چاہیے۔
محترمہ فاریحہ جمشید ماہر اقبالیات کئی کتابوں کی مصنفہ اور پنجاب کالج میں گزشتہ کئی برسوںسے معلمی کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نسل نو میں تربیت کی کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل ہم اپنے مقصد حیات کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہمارا تشخص ملتِ واحدہ کا ہے۔ اپنے نظریے کی شناخت کرنا ضروری ہے تا کہ ہم زندہ قوموں کی طرح عزت کے ساتھ جینا سیکھیں اور اپنی نسلوں کو سردار بن کر زندگی گزارنا سکھائیں۔
محترمہ مدیحہ صدیقی بطور وکیل اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ مقبولیت عوامی پسندیدگی کے حصول کے لیے ناگزیر اقدامات جو مطلوب ہیں وہ میڈیا تک رسائی کا حاصل ہونا ہے۔یہ دور میڈیا کا ہے اس وجہ سے بھی عوام میں اور ہم میں دوری پائی جاتی ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کا لٹریچر جو بہترین فکری رہنمائی مہیا کر سکتا ہے عوام کے لیے عام فہم بنایا جانا ضروری ہے۔
ڈاکٹر پروفیسر کرن بتول صاحبہ کا کہنا تھا ہمارے معیارات زندگی غیر محسوس طریقے سے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ مقصد زندگی کے بغیر ہم بھول بھلیوں میں بھٹکا دیے گئے ہیں۔ انبیاء کرام کے طریق کار کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پہلے بکریاں چرانے کا فن سکھایا گیا تا کہ وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا سیکھ سکھیں۔ پروفیسر صاحبہ ملتان خواتین یونیورسٹی میں تعلیمی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
محترمہ تہمینہ مظہر صاحبہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں 22 سال سے تعلیمی فرائض سرانجام دے رہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ادخلو فی السلم کافۃ کا مطالبہ عوام کی نظر میں بہت مشکل ہے۔ عمل میدان میں کوتاہ عمل ہیں ہم اور منفافقت زدہ بھی۔ بائیو باٹنی کی پروفیسر صاحبہ نے لٹریچر کے عام فہم نہ ہونے کا شکوہ کیا۔
محترمہ روبینہ حنیف صاحبہ ہومیو ڈاکٹر ہیں اور حجامہ کی ماہر پریکٹیشنز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی جماعتیں دراصل کلمہ کا نفاذ کرنے میں ناکام ہیں۔ فرقہ پرستی اور تعصب اس کے بنیادی عوامل ہیں۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑ سکے ہم۔ بطور ماں ہم خواتین اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ڈگریاں دلوانے میں ہم بچے کے 20 سے 30 سال کھو دیتے ہیں۔ لیکن قرآنی علم کے حصول کے لیے وقت نہیں نکالتے لہٰذا قرآن ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ نیز بچے اور ماںکے باہمی تعلق کے حوالے سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ آج کا بچہ ماں سے بہت دوری پر ہے۔ جب کہ سوشل میڈیا سے قریب۔
ڈاکٹر شائستہ صمد صاحبہ ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے انقلاب کے حوالے سے نہایت علمی گفتگو کرتے ہوئے بتایا انقلاب کا مادہ قلب ہے۔ یعنی دل، یعنی حرکت کا استعارہ۔ انقلاب لانے کے لیے منظم کوششوں کو ضروری قرار دیا۔ انقلاب برپا کرنے کے دو طریقے انہوں نے بیان کیے۔ 1۔ مکمل تبدیلی۔ 2۔ ترجیحات۔ موجودہ صورت حال میں ہمیں نظام ریاست میں تبدیلی مطلوب ہے کیونکہ ہم نے آئین کو اسلامی بنانا ہے۔ یہ ایک بھاری پتھر ہے۔ جس کو اٹھانا اکیلے ممکن نہیں بلکہ ہم سب کو مل کر دھکا لگانا ہے۔ جس میں اشرافیہ، امیر، غریب، جاہل، پڑھا لکھا، ہر طبقہ فکر روح انقلاب کے ساتھ شامل ہو۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں۔ جامع مسجد درکار ہے۔ بڑا واقعہ یا ایشو کو کیش کروانا چاہیے۔ اردگرد کی ریاستوں کا بھی ہمنوا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کا بننا قائداعظم کی کوششوں کے ساتھ دیگر سرکردہ افراد کی بھی سعی و جہد کا نتیجہ تھا۔ علامہ اقبال اور علماء بھی ہمنوا تھے۔ نوابین ریاست بھی انقلاباتِ زمانہ کے سلسلے میںانہوں نے انقلاب فرانس، انقلاب روس اور کیوبا کے بھی انقلاب کا تذکرہ کیا۔
محترمہ شگفتہ بھٹی صاحبہ معروف صحافی، کالم نگار، ناول نگار، ٹی وی ڈرامہ نگار نے بہت حوصلہ افزا بات کرتے ہوئے کہا انتخابی سیاست کی بات الگ ہے لیکن جماعت اسلامی نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے۔ جماعت کا ایک رعب اور دبدبہ ہر جگہ ہے کیونکہ جماعت اسلامی اسلام کا دوسرا نام ہے۔ ہمیں گھبرائے بغیر تبلیغ کا فریضہ بھی سر انجام دینا ہے اور سیاست کا بھی۔ ہمارے سامنے رکاوٹیں ضرور ہیں۔ لیکن صبر، ایثار اور حکمت سے کام لینا ہو گا۔ ہمیں کام کرتے ہوئے تمام شعبوں کے مسائل کو سامنے رکھنا ہو گا۔ میڈیا سے وابستگی کی بدولت انہوں نے میڈیا کے حوالے سے ایک کتابچہ ترتیب دینے کا عندیہ دیا نوجوان طبقہ کو ساتھ لے کر چلنا وقت کی ایک اہم ضرورت بتایا۔
محترمہ ڈاکٹر حمیرہ طارق صاحبہ نائب قیمہ جماعت اسلامی پاکستان مہمان خصوصی بلکہ صدر مجلس نے اپنے خطاب میں تمام شرکائے مذاکرہ کے خطاب کا محاکمہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو درپیش مسائل کا ماہرانہ تجزیہ کیا۔ ہم پر جغرافیائی، نظریاتی، تہذیبی طور پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں۔ قادیانیت کے فروغ کی کوشش، اسلامیات کا مضمون غیر مسلم اساتذہ سے پڑھایا جانا، تعلیم کو سیکولر بنا دیے جانا، اربوں کھربوں کی کرپشن اور سرمایے کی بیرون ملک منتقلی، انصاف کا کھلے عام قتل عام سب سامنے کی باتیں ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام پر تابڑ توڑ حملے جن سے طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ٹوٹے گھروں کے بچے پھر جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ فیملی سسٹم مضبوط ہو تو تعمیری سوچ بچوں کے اندر پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے سامنے آئیڈیل گھرانہ علیؓ و فاطمہؓ کا گھر ہے۔ جہاں حسنؓ اور حسینؓ جیسے بچوں نے جنم لیا۔ آج کے خودغرض اور مادہ پرست معاشرے میں ہماری اقدار بدل کر رکھ دی ہیں۔ مہمان داری رحمت کی بجائے زحمت بن چکی ہے۔ بچون کی تعلیم متاثر ہونے کے نام پر فساد فی الارض کا قرآن پاک میں سو سے زائد جگہوں پر تذکرہ ہے اور یہ سب اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ لا الہٰ الا اللہ کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں شان رسالتؐ پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ ہم تمام خواتین اپنی شناخت قرآن و سنت سے حاصل کرنا اور اپنی بنیاد کو مضبوط بنانا ہے۔ سوشل میڈیا موجودہ دور میں ابلاغ کا مضبوط ترین ذریعہ ہے اس کے درست استعمال سے ہم ایک سال کے اندر اذہان کو اسلامی رنگ دے سکتے ہیں۔
اس پر مغز تقریب کی میزبان حمنہ فاطمہ کی بہترین دعا کے بعد یہ خوبصورت محفل اختتام کو پہنچی۔