بچوں کا اغوا حساس نوعیت کا معاملہ ہے اس کی تہہ تک جائینگے،جسٹس ثاقب نثار

298

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی  میں دو رکنی بینچ نے پنجاب  بھر میں بچوں کے اغواء کے واقعات کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی عدالت نے کہا کہ ریاست عوام کے جان و مال کا تحفظ نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے ۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اغوا ہونیوالے بچوں کے بارے میں از خود کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی  سی سی پی اوسمیت اعلی پولیس حکام پیش ہوئے۔ کیس کی سماعت جسٹس میاں ثاقب نثاراور جسٹس اقبال حمید الرحمن پر مشتمل بنچ نے کی۔

اے آئی جی ندیم نواز نے عدالت کو بتایا کہ2015سے جولائی 2016تک 1808بچے پنجاب سے اغواہوئے، 1093بچے بازیاب کرائے گئے جبکہ گزشتہ سات ماہ کے دوران 767 بچے اغوا ہوئے جن میں 715بازیاب ہوچکے ہیں۔اے آئی جی نے مزید کہا کہ اغوا ء ہونے والے بچوں کی عمریں 6سے 15سال کے درمیان ہیں،پولیس نے ان وارداتوں کو روکنے اور بچوں کی بازیابی کیلیے موثر حکمت عملی تیار کرلی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے اس پر کہاکہ یہ رپورٹیں سپریم کورٹ کو دکھانے کیلئے لائے ہیں یا صوبے کے سربراہ کو،ندیم نواز نے جواب دیایہ رپورٹس سپریم کورٹ کے روبرو پیش کرنے کیلیے لائے ہیں ، سپریم کورٹ جلد نتائج دیکھے گی اور خوش ہوگی۔

جسٹس ثاقب نثار نے  ایڈیشنل آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے یہ اعداد وشمار وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پیش کیے اس پر ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ نہیں یہ رپورٹ وزیراعلیٰ کو نہیں بھجوائی آپ کے از خود نوٹس لینے کے بعد یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے،ایسا نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے،لاپتہ بچوں کے والدین تھانوں کے باہر واویلا کرتے ہیں، واویلا کرنے والوں کے مقدمے درج نہیں ہوتے،یہ انتہائی حساس معاملہ اس کی تہہ تک جائیں گے۔

عدالت نے کہا کہ اغوا ہونیوالے دس بچوں کی تفتیش کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں،ایسے بچے بھی ہیں جو تاوان کیلیے اغوا ہوتے ہیں لوگ پیسے دیکر کر چھڑا لیتے ہیں، ایسے کیسز میں لواحقین مقدمے درج نہیں کراتے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بچوں کو جسمانی اعضا فروخت کرنے کیلیے بھی اغوا کیا جاتا ہے جس پر اے آئی جی عارف نواز نے عدالت کو بتایا کہ گجرات اور اس کے گرد و نواح میں ایسی شکایات ہیں جس پرکام کررہے ہیں۔ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ جو چھ سے پندرہ سال تک کے بچے  اغواء ہوئے ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا لیکن جو اٹھارہ سال سے زائد عمر کے لوگ اغواء  ہوتے ہیں ان کیے اعضاء نکال لیے جاتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ پولیس کی رپورٹوں پر اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت کی معاونت کرے اور حقائق بتائے۔معروف وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر حقائق غلط شائع ہوجاتے ہیں ،جاوید اقبال کیس میں بچوں کو تیزاب میں جلانے کی باتیں درست نہیں تھیں۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اغوا ہونیوالے بچوں کے بارے میں از خود کیس کی سماعت بدھ 3اگست تک ملتوی کر دی گئی۔