۔16ماہ کا شکوہ۔ 35برس کا حساب بھی دیں

386

متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ فروغ نسیم ایم کیو ایم کے کوٹے پر کابینہ میں نہیں ہیں ہم تو دوسرے وزیر کے لیے مطالبات کرتے رہے لیکن حکومت سے ہمیں دوسری وزارت نہیں دی گئی۔ لیکن انہوں نے وزارت سے الگ ہونے کا جو جواز پیش کیا ہے وہ ایم کیو ایم کے تناظر میں لاجواب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 16 ماہ سے کوئی کام نہیں ہوا ہم سے وعدے پورے نہیں کیے گئے اس لیے وزارت میں بیٹھنا بے سود ہے تاہم وعدہ خلاف حکومت اور کام نہ کرنے والی حکومت سے تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ ارے ایم کیو ایم صرف 16ماہ میں کوئی کام نہ کرنے پر دلبرداشتہ ہو رہی ہے۔ اس ایم کیو ایم نے جس کا حصہ خالد مقبول اول روز سے رہے ہیں تقریباً 35 سال کراچی، حیدرآباد پر حکمرانی کی اور اپنے منشور کے مطابق کسی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ کوٹہ سسٹم ختم کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کی موجودگی میں بڑی خوبصورتی سے کوٹہ سسٹم کو توسیع دی جاتی رہی۔ پورے دور میں بھتا اور بوری بند لاشوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ کراچی کا کاروبار تباہ کیا، نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب و قلم کی جگہ کلاشنکوف اور بھتے کی پرچی پکڑا دی گئی۔ نتیجتاً ایک جاہل نسل تیار کردی گئی۔ اب گریجویٹ اور ماسٹرز ڈگری والا بھی کچھ لکھنے پڑھنے سے عاری ہے۔ نہ تاریخ کا پتا نہ جغرافیہ سے واقفیت۔ ایم کیو ایم کے رہنما ذرا اہل کراچی کو بتائیں کہ انہوں نے 16ماہ میں حکومت سے وعدے پورے نہ ہونے پر وزارت چھوڑی ہے تو یہ بھی بتائیں کہ ان کے مطالبات کیا تھے۔ کیا واقعی ایک اور وزیر کا مطالبہ ان کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اسی طرح وہ بتائیں کہ ان کے میئر چار سال سے زیادہ عرصے سے کراچی پر براجمان ہیں اہل کراچی سے کون سا وعدہ وفا کیا۔ صرف وفاق کی امداد پر انحصار کیوں، ایم کیو ایم کے میئر کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت پیسے دے۔ یہ پارٹی شہر سے کچرا صاف نہ کراسکی وہ 35 ارب روپے لے کر بھی کیا کرلے گی۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے یہی مطالبہ کیا ہے کہ کراچی 35ارب اور حیدر آباد کو 15ارب روپے دیے جائیں۔ پرانی ایم کیو ایم کا بھی یہی طریقہ تھا اور نئی ایم کیو ایم کے پرانے رہنما جو آج کل اس ایم کیو ایم کے سربراہ ہیں وہی کام کررہے ہیں جو پہلے کیا جاتا تھا۔ یعنی ’’میں تو چلی میکے‘‘۔ کبھی پیپلز پارٹی سے ناراض ، نواز شریف سے دوستی۔کبھی نواز شریف سے ناراض، پیپلز پارٹی سے دوستی اور نواز شریف لسانی جماعت کے اس قدر سچے دوست بنے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ ہونے کے باوجود لاہور سے کراچی پہنچ کر سیدھے 90 جاتے تھے اور وہاں سے سیدھا ائرپورٹ ، چند فرلانگ کے فاصلے پر آئی جے آئی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور کا گھر تھا انہیں بھی بھول جاتے تھے۔ پرانی ایم کیو ایم بھی ایک طرف الگ ہونے کی دھمکی بھی دیتی تھی اور واپسی کا راستہ بھی کھلا رکھتی تھی۔ قیمت بہرحال بڑھوائی جاتی تھی۔ اب دو نہیں تین وزارتیں ہوں گی۔ ممکن ہے خالد مقبول کا یہ دعویٰ درست ہو کہ فرغ نسیم ایم کیو ایم کے کوٹے پر کابینہ میں نہیں ہیں، بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ تو جنرل پرویز کے کوٹے پر کابینہ میں ہیں۔ جنرل پرویز کے کوٹے پر اور بھی وزراء کابینہ میں ہیں۔ جن لوگوں نے بھی کھینچ تان کر یہ سلیکٹڈ حکومت بنائی ہے اس نے ساری خرابی کردی ہے جمہوریت کو بھی دائو پر لگا رکھا ہے۔ چھ نشستوں کی برتری بھی زبردستی دلائی گئی ہے جب چاہیں گے نیچے سے قالین کھینچ لیں گے۔ ایم کیو ایم کے ایک وزیر کے کابینہ سے نکلنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ چند مراعات لے کر کابنیہ میں واپس آجائیں یا ایک وزیر کا اضافہ کرالیں گے یا پھر جس طرح مولانا فضل الرحمن اشارے دے رہے ہیں کہ دو ماہ میں حکومت جانے والی ہے اس اعتبار سے یہ پہلا پتھر ہے۔ بہرحال جو بھی ہو یہ ملک اور جمہوریت کسی کے لیے درست نہیں۔ حکومت اگر انہی بے ساکھیوں پر کھڑی رہے گی تو ملک کو استحکام کیا خاک ملے گا۔ اگر پی ٹی آئی بھی ایم کیو ایم سے اسی طرح بلیک میل ہوگئی جس طرح سابق حکمران ہوتے رہے ہیں تو پھر وہ بھی سانحہ بلدیہ ٹائون، نشتر پارک، 12مئی، 7اپریل اور ہزاروں افراد کے قتل، اربوں روپے کے بھتوں اور سندھ خصوصاً کراچی و حیدرآباد کا نظام تباہ کرنے کے جرائم میں شریک سمجھی جائے گی۔ پیپلز پارٹی تو یہ کام بار بار کرچکی ہے اس وقت وہ بھی کراچی دشمنی میں ایم کیو ایم کو چارہ ڈال رہی ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا یہ جملہ دلچسپ ہے کہ انہیں معلوم ہے ایم کیو ایم والے وزارتوں پر نہیں گرتے۔ گویا عمران اسماعیل کو کچھ نہیں معلوم۔