نوجوان نسل کا تحفظ

305

 گزشتہ جمعتہ المبارک کو قومی اسمبلی سے اتفاق رائے کے ساتھ منظور ہونے والے زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل 2019 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا ہو گی۔ اس بل کے ذریعے پولیس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعہ کی رپورٹ کے اندراج کے دو گھنٹوں کے اندر اندر اس پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پولیس افسر قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کا یہ اقدام قابلِ سزا جرم تصور ہو گا۔ یہ بل بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک نئے ادارے ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ کے قیام کی راہ ہموار کرے گا جس کی سربراہی ایک ڈائریکٹر جنرل رینک کا افسر کرے گا جس کی تعیناتی وزیر اعظم قواعد وضوابط کے تحت کریں گے جبکہ دیگر اراکین کا تقرر بھی قانون کے مطابق کیا جا ئے گا۔ ابتدائی طور پر اس بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت کی حدود پر ہوگا البتہ اس ضمن میں چاروں صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کی ذمے دار ہوں گی۔ یاد رہے کہ اس بل کی تیاری کا کام جنوری 2018 میں پنجاب کے شہر قصور میں چھ سالہ بچی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے بعد شروع کیا گیا تھا جس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں نہ صرف اس واقعے کے مرکزی ملزم عمران علی کو ڈی این اے ٹیسٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتارکرلیا گیا تھا بلکہ اسے اس کے کیے کی سزا پھانسی کی صورت میں دے دی گئی تھی مگر اس کے باوجود بھی کئی شہروں سے بچوں کے خلاف جرائم کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں جس کی بعض دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ پاکستان میں بچوں سے زیادتی کرنے والے افراد کے کسی ریکارڈ کا مرتب نہ ہونے کو قرار دیا جاتا ہے۔
زیر بحث قانون کی ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ اس قانون کی رو سے بننے والا ادارہ بچے کی گمشدگی سے لیکر اس کی باحفاظت بازیابی یقینی بنانے کے علاوہ بازیاب ہونے والے بچوں کی بحالی کے لیے بھی موثر اقدامات کرے گا۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی کم عمر لڑکے یا لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد قتل یا شدید زخمی کر دیا جاتا ہے یا اسے خواہش نفسانی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی یا پھر عمر قید اور یا پھر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم سات سال قید کی سزا دی جائے گی۔ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جائداد کے حصول کے لیے اگر 18 سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو 14 سال قید اور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچے کو ورغلا کر یا اغوا کر کے اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جانا یا اسے اس کے والدین یا قانونی سرپرست کی تحویل سے محروم کیے جانا قابل سزا جرم ہو گا۔ یاد رہے کہ اس بل پر کام کا آغاز کرتے ہوئے فروری 2018 میں قومی اسمبلی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس بل کے تحت 1099 کی ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جب کہ اس کے علاوہ اس سلسلے میں ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔
یہ بل قومی اسمبلی سے ایک ایسے موقعے پر منظور کروایا گیا ہے جب ابھی چند دن پہلے ہی وزیراعظم عمران خان ایک ایسے موبائل ایپ کا افتتاح کر چکے ہیں جس کے ذریعے والدین کو ان کے بچوں کو لاحق خطرات اور ان سے بچائو کے بارے میں آگاہی دی جائے گی۔ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ ہمارے ہاں پچھلے چند سال کے دوران میں نہ صرف بچوں کے اغواء اور ان پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو اہے بلکہ ہمارے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل کی بقاء اور تحفظ کو سنگین خطرات لاحق ہوئے ہیں جن پر اگر ایک طرف سوچ وبچار کی ضرورت ہے تو دوسری جانب ان درپیش خطرات کے فوری سدباب کے لیے بعض ناگزیر اقدامات کا فوری اٹھایا جانا بھی ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ اس حوالے سے یہ امر مزید لائق تشویش ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد اور ان میں منشیات کے استعمال کی لت کا باعث موبائل کا غیر ضروری اور غلط استعمال بن رہا ہے جس کا تدارک الگ سے ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ایک ادارہ یا قانون منشیات اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو نہیں پاسکتا بلکہ اس چیلنج کا مقابلہ متعلقہ حکومتی اداروں، سیاسی جماعتوں، والدین، اساتذہ، میڈیا اور علما کرام سمیت پوری قوم کو مل کر کرنا ہوگا۔ لہٰذا اس ضمن میں جہاں والدین، اساتذہ اور علماء کرام زندگی ایپ کی مدد سے بچوں اور پورے معاشرے میں منشیات کے استعمال اور بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرسکتے ہیں وہاں نوجوان نسل کے تحفظ کے لیے نئی قانون سازی کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد بھی وقت کی اہم ضرورت اور تقاضا ہے۔