سزا کالعدم… لیکن سزا تو ہوچکی

557

لاہور ہائی کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سزا سنانے والی خصوصی عدالت ہی کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی سزا ختم ہوگئی۔ جس روز خصوصی عدالت نے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا اس روز اس پر سامنے آنے والے ردعمل سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ چند دنوں میں یہ فیصلہ منسوخ ہوجائے گا لیکن پیر کے روز ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے نے تو دنیا کو حیران کردیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف جس خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا اسے عدالت عظمیٰ نے تشکیل دیا تھا۔ اگر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ درست تسلیم کیا جائے تو جنرل پرویز مشرف کی سزا سے قطع نظر اصل مقدمہ تو عدالت عظمیٰ کے خلاف بننا چاہیے تھا کہ جس نے غیر آئینی خصوصی عدالت قائم کردی۔ عدالت عظمیٰ نے 18 نومبر 2013ء کو نواز شریف حکومت کی درخواست تسلیم کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت قائم کی جائے۔ اس سے قبل 31 جولائی 2009ء کو عدالت عظمیٰ کے 14 رکنی بنچ نے جنرل پرویز مشرف کے نومبر 2007ء کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔ خصوصی عدالت میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، سندھ ہائی کورٹ کے نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے شاہد کریم شامل تھے۔ عدالت عالیہ لاہور نے پیر کے روز سنائے جانے والے فیصلے میں کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا قیام ہی غیر آئینی تھا۔ اب یہ فیصلہ تو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ لاہور کے درمیان طے ہوگا کہ عدالت عظمیٰ اعلیٰ عدلیہ ہے یا عدالت عالیہ۔ اس فیصلے سے بظاہر جنرل پرویز مشرف سزا سے بچ گئے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کے 14 رکنی بنچ اور پھر 2013ء میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو عدالت عالیہ نے کیونکر غیر آئینی قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ بھی عدالت عظمیٰ ہی کو کرنا ہوگا کہ آیا ایک ماتحت عدالت اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے یا نہیں اور عدالت عظمیٰ اس پر کیا موقف اختیار کرتی ہے اس کا ملک کے مستقبل پر گہرا اثر ہوگا۔ یہ بات سب کو سمجھ میں آرہی ہے کہ ملک میں دو واضح قطب بن گئے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے حق میں توازن لانا چاہتے ہیں۔ یہ نہایت خراب بات ہوگی۔ خدا خدا کرکے عدلیہ نے بہتری کا سفر شروع کیا تھا اس میں تبادلے تقرر، ریٹائرمنٹ وغیرہ کا نظام نہایت موثر طریقے سے چل رہا تھا لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں تو یہاں اس معاملے میں فیصلہ جو کچھ بول رہا ہے اس سے ملک کے بڑے ادارے میں دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں۔ اگر آئین اور قانون کی تشریح کے معاملے میں عدالت عظمیٰ اور عالیہ کی سوچ میں بعد المشرقین ہے تو پھر عام لوگوں کے مقدمات کا کیا بنے گا۔ معاملہ چوں کہ عدلیہ کا ہے اس لیے اس پر زیادہ تبصرے تو نہیں کیے جانے چاہییں، تاہم توجہ دلانا ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ کے وقار کا بھی مسئلہ ہے، جہاں تک جنرل پرویز کی سزا ختم ہونے کا تعلق ہے تو فی الحال یہی صورت ہے اور شاید یہ صورت تبدیل بھی نہ ہو لیکن اگر 1999ء سے 2008ء تک کے دور کو دیکھا جائے، اس دوران ہونے والے اقدامات کو دیکھا جائے، اس کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو یہ بڑا بھیانک دور تھا۔ جنرل پرویز کے دور میں مردہ ایم کیو ایم میں دوبارہ جان ڈالی گئی۔ چیف جسٹس کو کراچی آنے سے روکنے کی کوشش میں 50 افراد کو قتل کیا گیا، پورا کراچی مفلوج کردیا گیا۔ جنرل پرویز کی اس خدمت کے نتیجے میں متحدہ کو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری بھی ہوگیا۔ وکلا کو طاہر پلازہ میں جلادیا گیا، اس کے بعد سے الطاف حسین کی مافیا دوبارہ مسلط ہوگئی اور آج بھی الطاف حسین کی باقیات مسلط ہیں۔ سوال یہ ہے کہ الطاف حسین غدار اور اس کو زندگی دینے والا محب وطن کیسے ہوسکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے تادم تحریر بالکل خاموشی ہے جس سے ایسا ہی محسوس ہورہا ہے کہ اس کڑوے گھونٹ کو پینے کے لیے وہ بھی تیار ہے۔ خصوصی عدالت نے جس روز جنرل پرویز مشرف کو موت کی سزا سنائی اس کے بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیا تو پورے پاکستان میں اس فیصلے پر اعتراض کرنے والوں میں سے کسی نے سزائے موت کی مخالفت نہیں کی بلکہ جسٹس وقار سیٹھ کے ریمارکس کو موضوع بنایا۔ ان ریمارکس کو خصوصی عدالت یا عدالت عظمیٰ میں لے جا کر حذف بھی کرایا جاسکتا تھا۔ لیکن مجموعی طور پر پوری قوم اس پر خوش تھی کہ اس فیصلے سے مستقبل میں مارشل لا کا راستہ بند ہوجائے گا، پورا ملک خوش تھا۔ جہاں تک پرویز مشرف کی سزا کا تعلق ہے تو شاید انہیں پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھنے والوں کی تعداد کم ہو لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ سرے سے ختم بھی ہوجائے تو سزا تو ہوچکی ہے، یہ اور بات ہے کہ فیصلہ سن کر جنرل پرویز بہت خوش ہیں ان کی طبیعت بھی بہتر ہونے لگی ہے، بہرحال ایسا تو ہوتا ہے۔بس خدشہ یہ ہے کہ آئین شکنوں کو کبھی سزا نہ ملی تو پھر کبھی مارشل لا لگ سکتا ہے تاہم آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد شاید اس کی ضرورت نہیں رہی۔ایک عجیب تماشا یہ ہوا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تووفاقی حکومت نے دائر کیا لیکن عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ ایک پیج پر تھے۔ سرکاری وکلاء پرویز مشرف کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ وزیر قانون پرویز مشرف کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے دہشت گرد الطاف حسین کی وکالت کی اور حال ہی میں آرمی چیف جنرل باجوہ کی وکالت کرنے بھی پہنچ گئے۔ یہ فروغ نسیم وہی ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں دو ہی بڑے لیڈر ہیں، ایک نیلسن منڈیلا اور دوسرا الطاف حسین۔ یہ صاحب اب تحریک انصاف کی کابینہ میں ہیں۔