وزیراعظم پاکستان عمران خان نے شکوہ کیا ہے کہ ایٹمی ملک بھارت پر انتہا پسند ہندو نظریے نے قبضہ کرلیا ہے۔ انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کا جن بوتل سے باہر نکلا تو اس نے خون خرابہ کیا۔ یہ نظریہ نسلی برتری اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے نفرت پر مبنی ہے، اس نظریے نے ایک ارب افراد کو یرغمال بنالیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی بھارتی آرمی چیف کے آزاد کشمیر پر قبضے کے بیان پر کہا ہے کہ بھارت کو 27 فروری سے زیادہ سخت جواب ملے گا۔ دراصل بھارتی فوجی سربراہ کا بیان اندرونی خلفشار سے توجہ ہٹانے اور بھارتی عوام کو خوش کرنے کے لیے ہے۔ وزیراعظم کی بات میں بڑا وزن ہے۔ لیکن ان کے بیان نے اس سے زیادہ وزنی سوال بھی اٹھادیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تو قیام پاکستان سے قبل بھی انتہا پسند ہندو ہی غالب تھے۔ پورے 72 برس سے انتہا پسندی ہی غالب ہے۔ حکومت خواہ کانگریس کی ہو یا کسی اور پارٹی کی اپنے مزاج کے اعتبار سے یہ تمام انتہا پسند ہندو ہیں، مسلمانوں کے خلاف تمام بڑے اقدامات تو کانگریس نے کیے ہیں۔ عمران خان نے یہ ضرور کہا ہے کہ آر ایس ایس کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔ جب تک آر ایس ایس ایک پارٹی تھی تو اس کے خلاف بھی کچھ کہا اور کیا جاسکتا تھا لیکن ایک فاشسٹ تنظیم جب اقتدار میں آجاتی ہے تو اس کے نقصانات نہایت شدید ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ پاکستان میں بھی سندھ اور مرکز میں فاشسٹ تنظیم کے اقتدار میں آنے کے بعد اس ملک کے عوام کرچکے ہیں۔ 35 برس کے لگ بھگ یہ فاشسٹ حکمرانی جاری رہی۔ آج یہی فاشسٹ مرکز اور سندھ کی حکمران پارٹیوں سے اپنی قیمت لگوارہے ہیں۔ وزیراعظم سے سوال یہ ہے کہ بھارت ایٹمی ملک تو 1974ء میں بنا تھا لیکن قیام پاکستان کا سبب انتہا پسند ہندو نظریہ ہی تو تھا۔ قائد اعظم نے 72 برس قبل انتہا پسند ہندوئوں کے نظریے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی جدوجہد کرکے پاکستان حاصل کیا تھا۔ کیا عمران خان نیازی کو یہ بات نہیں معلوم۔ یقینا معلوم بھی ہوئی تو کون سا سمجھ میں آیا ہوگا۔ جس طرح ہمارے وزیراعظم سوچتے ہیں اسی طرح بہت سے اور لوگ بھی سوچتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک سیکولر بھارت کی موجودگی میں قائد اعظم دوسرا سیکولر ملک کیوں بنائیں گے لیکن یہ سب لوگ سیکولر پاکستان کی قوالی گائے جارہے ہیں۔
وزیراعظم نے جس خدشے اور خطرے کا اظہار کیا ہے وہ بھارت میں انتہا پسندوں کے حکومت میں آنے سے متعلق ہے۔ لیکن پاکستان میں کس انتہا پسند نظریے نے قبضہ جمالیا ہے۔ 22 کروڑ مسلمانوں کے ملک پر انتہا پسند ہی تو قابض ہیں جو اسلام کے سوا ہر کام کرنے پر راضی ہیں۔ کبھی فوجی حکمران، کبھی اسلامی سوشلزم والی جمہوریت، کبھی سب سے پہلے پاکستان والی روشن خیال فوجی آمریت اور اس کا پر تو (ق) لیگ والے۔ یا پھر پیپلز پارٹی کی روشن خیال جمہوریت اور سود کے حق میں عدالت میں کھڑے ہونے والے مسلم لیگی حکمران ہوتے ہیں اور اب ان تمام جماعتوں کا کچرا ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ ذرا وزیراعظم اس پر بھی اظہار خیال فرما دیں کہ پاکستان پر کون سے انتہا پسند قابض ہیں۔ بھارت میں آر ایس ایس مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے یہاں اسلام پسندوں سے نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان میں چوں کہ بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے بلکہ تقریباً 95 فی صد مسلمان ہیں اس لیے اسلام کے خلاف تو ہرزہ سرائی کی ہمت کسی میں نہیں۔ ملا، ڈاڑھی اور قوانین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی 22 کروڑ مسلمانوں کو اس انتہا پسندی نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسلام کے خلاف یہ سارے ایک دوسرے کے دشمن چند لمحوں میں ایک پیج پر آجاتے ہیں ورنہ لوٹ کے مال پر خوب لڑائیاں ہوتی ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی اس موقع پر بھارتی آرمی چیف کے بیان کو مسترد کیا ہے اور انہوں نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ بھارتی فوجی سربراہ اندرونی خلفشار سے توجہ ہٹانے اور بھارتی عوام کو خوش کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ یقین جانیں ترجمان صاحب اگر ہماری جانب سے بھی ایسے ہی بیانات دے دیے جائیں تو نہ صرف اندرونی خلفشار سے توجہ دوسری طرف مبذول ہوجائے گی بلکہ کشمیر کو آزاد دیکھنے کے خواہشمند 22 کروڑ پاکستانی بھی خوش ہوجائیں گے۔
اگر بیانات کی دنیا سے نکلا جائے تو اچھا ہے ورنہ پاکستان میاں نواز شریف کے ادوار میں کئی مرتبہ ایشیائی ٹائیگر بن چکا ہے اور جرنیلوں کے دور میں امت مسلمہ کا قائد اور امت مسلمہ کا دشمن بھی بن چکا ہے۔ لیکن قائد اعظم کے وژن اور قائد اعظم کے اصولوں کا نام لے لے کر اس ملک پر حکمرانی کرنے والے قائد اعظم کے اصولوں سے مسلسل انحراف کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بتائیں کہ پاکستان کب اس قابل ہوگا کہ اپنے خلاف کسی کے عزائم کا منہ توڑ جواب دے سکے۔ امریکا و بھارت تو دور کی بات ہے بنگلادیش جیسا ملک جب چاہتا ہے چپیت رسید کردیتا ہے۔ پاکستان ان کو جواب کب دے گا، جواب منہ توڑ بیان کی صورت میں نہیں بلکہ درحقیقت منہ توڑ دیا جائے۔ جس 27 فروری کی بات بار بار کی جاتی ہے اگر اس کے پائلٹ ابھی نندن کو کچھ دن پاکستان میں رکھ کر بین الاقوامی برادری کے سامنے کوئی معاہدہ کرالیا جاتا تو کم از کم بھارت کو اس کا چہرہ تو دکھایا جاسکتا تھا۔ اب تو وہ کہتا ہے کہ ہم نے بڑی کارروائی کی دھمکی دی تھی اس لیے پاکستان نے فوراً پائلٹ واپس بھیج دیا۔ ہمارا مسئلہ بھارت کی انتہا پسند قیادت بعد میں ہے پہلے پاکستان سے انتہا پسند قیادت کا صفایا کرنا ہوگا۔