امن عالم اور طاقت کا بدمست سانڈ

258

چند دن قبل بظاہر یوں لگ رہا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد سے خطے کا ہی نہیں کرۂ ارض کا مستقبل بھی دائو پر لگ گیا ہے۔ قاسم سلیمانی کی تدفین سے پہلے ایران نے عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنا کر اپنی رائے کے عامہ کے جذبات کی ترجمانی کی کوشش کی۔ یہ جذبات قاسم سلیمانی کے جنازے میں عوامی شرکت سے عیاں تھے۔ ایران نے میزائل حملوں میں اسی فوجیوں کے مارے جانے کا دعویٰ کیا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسی شام وائٹ ہائوس میں میڈیا کے سامنے آئے او ر انہوں نے مختصر سا خطاب کیا۔ جس میں قاسم سلیمانی اور ایران کے حوالے سے روایتی الزامات کو دہرایا گیا۔ امریکی ہتھیاروں کی جدت اور تیر بہدف ہونے کی بات کی۔ خطے کے ممالک بالخصوص درپیش خطرات کی بات کی اور چلے گئے۔ ٹرمپ کا یہ بیان ایک روایتی پالیسی کا عکاس تھا اور اس میں وہ ایران کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دکھائی دیے۔ اگر صلح کی خواہش نہیں بھی تھی تو بھی ان کا لہجہ روایتی جنگویانہ نہیں تھا جو ان کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ وہ بہت بجھے بجھے اور اکھڑے اکھڑے سے دکھائی دے رہے تھے اور ایران کی طرف دست تعاون بڑھا رہے تھے۔ انہوں نے ایران اور امریکا کے درمیان داعش کے نام سے مشترکہ دشمن کی بنیاد بھی تلاش کر لی تھی۔
ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا کہ ایران کے میزائل حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا بلکہ صرف فوجی اڈوں کو معمولی نقصان پہنچا۔ ٹرمپ کا بدلا ہوا لہجہ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ جہاں کچھ بااثر ممالک کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے پس پردہ کام کر رہے ہیں وہیں امریکا کے اندر ایک مضبوط لابی ٹرمپ کو خلیج میں جنگ کا نیا روگ پالنے سے روکے ہوئے ہے۔ ایران نے بھی یہ واضح کردیا تھا کہ ان میزائل حملوں کے بعد وہ اس نوعیت کی کارروائیاں جاری رکھنے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ بات بھی نہیں کی گئی کہ حملوں اور پراکسی وار کا یہ سلسلہ کسی نئے انداز سے جاری رہے گا جیسا کہ حزب اللہ اور حماس کی کارروائیوں میں شدت آسکتی ہے۔ عراق میں امریکی فوج پر تباہ کن وار ہو سکتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ امریکا نے کشیدگی کی یہ قسط پاکستان سے شمسی ائر بیس اور کچھ اور فوجی ٹھکانے مانگنے کی خاطر شروع کی تھی کیونکہ قاسم سلیمانی کے قتل سے چند ہی دن پہلے سعودی اور اماراتی حکام امریکا کی یہ فرمائش پاکستان تک پہنچا چکے تھے اور پاکستان اس کا نفی میں جواب بھی دے چکا تھا۔ شمسی ائر بیس اور گوادر میں آکر بیٹھ جانے کا مطلب یہ تھا کہ سی پیک کو تالے اور مکڑی کے جالے لگ جائیں۔
ٹرمپ ایک مخصوص ذہنی سوچ کا آدمی ہے۔ جس کے رگ وریشے میں اسرائیل نوازی سرایت کیے ہوئے ہے اس پر مستزاد اس شخص کو درپیش سیاسی مشکل اور مواخذے جیسی صورت حال ہے۔ اس نے ٹرمپ کا بلڈ پریشر مزید بڑھا دیا ہے۔ وہ نئی مہم جوئی کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکا ہزاروں میل دور سے مشرق وسطیٰ میں آکر جنگیں مسلط کر
رہا ہے تو اس کا کچھ نقصان نہیں۔ ماضی کی جنگوں کی طرح وہ کسی نئی جنگ کا بل بھی علاقے کے متمول مسلمان ملکوں کو پیش کر دے گا۔ صدام حسین کے خلاف اپنے مفاد کی خاطر جنگیں لڑنے والے امریکا نے عرب ملکوں کو یہ باور کرایا کہ یہ جنگ حقیقت میں ان کے تحفظ کی خاطر لڑی گئی اس سے امریکا کو جنگ کے اخراجات سعودی عرب اور دوسرے ملکوں سے وصول کرنے میں آسانی رہی۔ اسی کو کہتے ہیں کہ ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے‘‘۔ ایک مسلمان ملک برباد بھی ہوا۔ اس کی فوج بھی تباہ ہوئی امریکا کا اسلحہ بھی فروخت ہوا اور اخراجات بھی مسلمان ملکوں سے وصول کیے اور حقیقت میں صرف اسرائیل کا تحفظ مقصود ومطلوب ہوتا ہے اور اسرائیل مفت میں تحفظ کے مزے لے رہا ہے۔ اب ایران کے معاملے میں اسی کھیل کا ایکشن ری پلے کیا گیا۔ امریکا کی اس چال کو سمجھنا مسلمان دنیا کا فرض ہے۔
ایران اور سعودی عرب کو اپنے قدیمی اور روایتی عرب وفارس کے تعصبات کو پس پشت ڈال کر اس وقت جنگ کی کوششوں کو ناکام بنا نا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ ’’لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم‘‘ جیسا ہو کر رہ جائے۔ پاکستان نے بہت اچھا کیا کہ ابتدا ہی میں امریکا کی بندوق کے لیے شمسی ائر بیس سمیت کوئی بھی اڈہ دینے سے انکار کیا اور یوں امریکی بندوق کے لیے ماضی کی طرح اپنا کندھا پیش کرنے سے صاف انکار کیا۔ اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکا ایران اور سعودی عرب کے دورے پر نکل پڑے ہیں تاکہ ان ملکو ں کو باور کرایا جا سکے کہ پاکستان اب ماضی کی غلطی دہراتے ہوئے امریکی مفادات کی جنگ کا ایندھن نہیں بنے گا۔ پاکستان اس وقت افغانستان میں امن کے لیے شاندار کردار ادا کر رہا ہے اور یہ کردار بھی مفت نہیںہونا چاہیے۔ اس کے بدلے میں امریکا کو کشمیر میں اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ جس طرح امریکا مفت میں پاکستان کو کچھ نہیں دیتا اسی طرح افغانستان سمیت کسی بھی جگہ امریکا کی مدد کرنا پاکستان پر فرض نہیں۔ اس لیے افغانستان کے بدلے کشمیر میں رعایت کے لیے پاکستان کو ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے خالص کاروباری اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں رضاکاری کا رواج اگر پہلے کسی دور میں رہا بھی ہے مگر اب ایسا ہرگز نہیں۔ کاروباری اور تجارتی دنیا میں اب اپنی خدمات مفت فراہم کرنے کو جذبہ ایثار نہیں بلکہ بے وقوفی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کو وقتی امداد اور ڈالروں کے عوض خدمت کے بجائے کوئی بڑا اسٹرٹیجک مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ موجودہ حالات میں وہ کشمیر پر کھلی حمایت ہے۔ بھارت اپنے رویوں کے باعث مغرب کے عام آدمی کے دل میں اپنی جگہ کھو رہا ہے۔ بھارت کے سیکولرازم، پلورل ازم اور جمہوریت اب سراب بنتی جا رہی ہے۔ اس تیزی سے بدلتی ہوئی فضاء سے پاکستان اسی طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے جس طرح بھارت نے نائن الیون کے وقت مغربی اداروں میں پاکستان کے خلاف نفرت کی پیدا کی جانے والی لہر سے فائدہ اُٹھا کر اس خلا کو پر کیا تھا۔