عظیم بلوچ اقبال کا شاہین

364

قاسم جمال

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی، عظیم بلوچ بھائی کی حادثے میں اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ہونے والی شہادت پر ہر شخص دل گرفتہ، رنجیدہ اور غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ عظیم بلوچ ایک متحرک اور دبنگ تحریکی کارکن تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ، حزب المجاہدین، شباب ملی، احباب جمعیت یا نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ جس مقام پر بھی انہیں ذمے داری دی جاتی وہ انتہائی احسن طریقے سے ادا کرتے۔ جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے تحت جب قائد اعظم پارک پر سندھ کا کنونشن منعقد ہوا تو عظیم بلوچ نے دن رات ایک کر دیے اور کنونشن کی کامیابی کے لیے انہوں نے انتھک محنت کی۔ اس کے علاوہ سراج الحق صاحب کے امیر جماعت منتخب ہونے پر سندھ کے طوفانی دورے پر بھی انہوں نے بڑی محنت کی۔ صوبہ سندھ کے دفتر میں اکثر ان سے ملاقات ہوتی بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ ملتے۔ آج دل یقین کرنے کو تیار نہیں کہ وہ عظیم آدمی جو نام کا بھی عظیم تھا ہم سے بہت دور چلا گیا ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس قبا آڈیٹوریم میں منعقد ہونا تھا۔ رات دو بجے تک عظیم بھائی رہائش گاہ میں مہمانوںکے لیے بستر کا انتظام کر رہے تھے اور بڑی مشکل سے انہوں نے رضائی اور کمبل کا انتظام کیا۔ پچھلے دنوں سراج الحق صاحب جب مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر ملاقات کے لیے دارالعلوم کورنگی تشریف لائے تو عظیم بلوچ بھی ان کے ساتھ تھے وہ دارالعلوم کورنگی کی عظیم الشان درس گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے انہیں دارالافتاء کے دفترکا دورہ بھی کرایا اور دارالافتاء کے کمپیوٹرائز نظام سے انہیں آگاہی بھی فراہم کی۔ اس موقع پر انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ پھر کبھی وقت نکال کر آئیں گے اور آپ کے ساتھ دارالعلوم کے دیگر شعبہ جات کو دیکھیں گے لیکن افسوس کہ شہید کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
این ایل ایف پاکستان کے مرکزی صدر شمس الرحمان سواتی صاحب 29دسمبر کو جب کراچی گولڈن جوبلی پروگرام کے سلسلے میں تشریف لائے تھے تو قبا آڈیٹوریم میں اچانک عظیم بلوچ تشریف لائے اور وہ شمس الرحمان سواتی سے بہت پرتپاک انداز میں ملے۔ عظیم بلوچ نے مزدوروںکے مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو کی اس سے این ایل ایف پاکستان کے صدر بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے عظیم بلوچ کو دعوت دی کہ وہ نیشنل لیبر فیڈریشن میں کام کریں۔ عظیم بلوچ نے سواتی صاحب کو اپنی گھریلو ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا اور مشاورت کے بعد جواب سے آگاہ کرنے کا وعدہ کیا لیکن موت نے انہیں موقع نہیں دیا۔ بلا شبہ تحریک اسلامی کا یہ بڑا نقصان ہے جو تحریک کا مستقبل تھے آج ہم سے جدا ہوگئے۔ عظیم بلوچ جہد مسلسل کی عملی تصویر تھے ان سے سب کا ایک روحانی تعلق تھا وہ نوجوانوں کی ہر دلعزیز شخصیت تھے اور ان کے ساتھی اور دوست ان کے جنازے میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور گلے لگ کر ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے تھے۔ بلاشبہ موت ایک حقیقت ہے اور ہر شخص کو اس کا مزا چکنا ہے کوئی جوانی میں چلا گیا اور کوئی بڑھاپے میں اس سفر پر روانہ ہوا۔ اچھے کردار کے مالک افراد ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں ان کے جسم کو موت آتی ہے لیکن ان کا کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ عظیم بلوچ جیسے بہادر جرات مند محنتی اور جفا کش نوجوان کسی بھی قوم اور خاص کر نظریاتی تحریکوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے ہیں اور ان جیسے نوجوانوں ہی کو اقبال نے شاہین کے لقب سے پکارا ہے۔ آج جماعت اسلامی اور اقبال کا شاہین ہم سے جدا ہوگیا ہے اور اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے اور جنت میں جنت کے سردار کی قربت عطا فرمائے۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں اور ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے ٹریفک کنٹرول کرنے کے بجائے رشوت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ٹریفک پولیس کو علاقے ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں اور قدم قدم پر ٹریفک پولیس عوام کو بے جا تنگ کرتی ہے اور چالان کے نام پر شہریوں سے جبری بھتا وصول کیا جا رہا ہے اور موٹر سائیکل اور رکشہ چلانے والے غریب نوجوانوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ جبکہ پورے ملک میں ہیوی ٹرالے، ٹرک، بسیں، مزدا، کوچز بغیر پرمنٹ کے چلائی جا رہی ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں کے پاس نہ ہی لائسنس ہوتا ہے اور نہ گاڑی کی فٹنس اکثر ٹرالر اوور لوڈنگ اور اوور ٹیکنگ کرتے ہوئے موت کا رقص کرتے ہیں ان ظالموں اور قاتلوں کو روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔ تمام قانون اورگرفت کمزور اور غریب لوگوں کے لیے ہی ہے۔ آج نواب شاہ باندھی کے قریب ہمارے مربی بھائی اور دوست عظیم بلوچ اپنے دیگر ساتھیوں عرفان لاکھو، غلام رسول باندھی سمیت اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے ہیں۔ جبکہ ان کے ایک ساتھی ناظم جمعیت سانگھڑ حماد اللہ شدید زخمی ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جلد شفایاب کرے اور ہم سب کو حفظ وامان میں رکھے۔
گزشتہ دنوں نارتھ کراچی میں تھانہ بلال کالونی کی حدود میں جماعت اسلامی کے کارکن ناصر ضمیر اور ان کے اہل خانہ کے آٹھ افراد ہائی روف اور رکشہ میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنے سے جاں بحق ہوگئے۔ دو زخمیوں کی حالت اب بھی نازک بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح روزانہ ٹریفک حادثات معمول بنے ہوئے ہیں۔ محکمہ ٹریفک میں گزشتہ دنوں چالیس ہزار سے زائد اہلکاروں کی بھرتیاں کی گئی لیکن ٹریفک کے معاملات درست ہونے اور بہتری پیدا ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر چلنے والی بسیں اور گاڑیاں موت کا رقص کر رہی ہیں اور قیمتی انسانوں جانوں کے ساتھ کھلواڑ جاری ہے۔ ٹریفک حادثے نے عظیم بلوچ کے خاندان اور ان کے بچوں ہی کو یتیم اور بے سہارا نہیں کیا بلکہ ملک بھر میں عظیم بلوچ کے ہزاروں کی تعداد میں چاہنے والے اور ان سے والہانہ محبت اور عقیدت کرنے والے بھی ایک ملنسار شفیق دوست اور ساتھی سے محروم ہوگئے ہیں۔ عظیم بلوچ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک کلمہ حق کے لیے مصروف عمل تھے انہوں نے اپنی جوانی کے قیمتی لمحات دین کی سربلندی کے لیے صرف کیے۔ انہوں نے دین کو صحیح طور پر سمجھا اور اس پر ڈٹ گئے۔ انہیں قریب سے جاننے والے جانتے تھے کہ انہیں شہادت کی بڑی تمنا تھی اور آج اللہ پاک نے ان کی سب سے بڑی خواہش اور آرزوکو پورا کیا اور شہید کے درجے پر فائض کیا۔ سوشل میڈیا پر ان کی شہادت کی خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر شخص افسردہ غمگین تھا، ہر شخص یہ کہہ رہا تھا کہ عظیم بلوچ شہید اس کے سب سے اچھے دوست اور ساتھی تھے اور عظیم بلوچ سب سے زیادہ محبت ان ہی کے ساتھ کرتے تھے۔ بے شک یہی اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف ہیں۔ عظیم بلوچ اپنی زندگی کی اتنی ہی سانسیں لکھوا کر لائیں تھے اس سے ایک سانس بھی زیادہ نہیں ہوسکتی تھی۔ عظیم بلوچ نے اپنی پوری زندگی مجاہدوں کی طرح گزاری اور شہیدوں کی طرح وہ اپنے ربّ کی جانب چلے گئے۔ ان کے ساتھی اور ان کے دوست عظیم بلوچ کے مشن پر عمل پیرا ہوکر اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو عملی طور پر نافذ کریںگے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں مدینے کی ریاست بنائیں گے۔
,,ستم کا آشنا تھا وہ
سب ہی کے دل دکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی
سحر ہوئی چلا گیا
ہوائیں ظلم سوچتی
کہ کس بھنور میں آگئی
وہ اک دیا بجھا تو
سیکڑوں دیے جلا گیا،،