امریکہ کا جنگی جرائم کا اعتراف

210

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی اخبارکو انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ” ہماری فوجی کاروائیوں کا مقصد صرف تیل کا حصول اور اس کی حفاظت ہے”۔

برطانوی اخبار کے مطابق ٹرمپ شام سے تیل چوری کرنے کی دھمکیوں میں مزید شدت لارہے ہیں جو کہ قانونی ماہرین کے بقول ایک جنگی جرم کی حیثیت رکھتا ہے اورا س طرح کے اقدام سے ممکنہ طور پر پورے ملک میں انتشار اور لوٹ مارکی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ برطانوی اخبار میں جنیوا کنونشن، جس کو 1929 میں بین الاقوامی سطح پر نافذ کیا گیا تھا، کی اُس شق کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو دو ملکوں کے مابین مسلح تصادم کے دوران جائیداد کی لوٹ مار کو بطور جنگی جرم قرار دیتا ہے اور جس کا امریکہ بھی دستخط کنندہ ہے۔

امریکہ ہمیشہ اس شق کی خلاف ورزی یہ کہہ کر کرتارہا ہے کہ ہم کسی خطرے یا ہنگامی صورتحال کا جواب دے رہے تھے اور یہی وہ طریقہ ہے جسے امریکہ نے 3 جنوری کو ایرانی فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے اور ان کے قتل کے جرم کی وضاحت کے لئے حالیہ دنوں میں اختیار کیا ہے۔

اگرچہ کانگریس نے ٹرمپ سےاس جرم کے بارے میں مواخذہ کیا ہے لیکن امریکہ ماضی میں بھی اور تاحال کئی جنگی جرائم میں ملوث ہے جس میں ایک سے زائد ممالک میں خصوصاً مشرقی وسطیٰ میں جارحانہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں انسانی جانوں کا نقصان سرفہرست ہے۔ ان میں وہ خطےبھی شامل ہیں جہاں امریکہ براہ راست مجرم رہا ہے یا اس نے کسی ملک کے ساتھ دوسرے ملک کے خلاف پرعزم معاون کی حیثیت سے کام کیا ہے اور ہر طرح کا جنگی سازو سامان فراہم کیا ہے جیسے سعودی عرب کی حمایت میں یمن کے خلاف۔

بش انتظامیہ کے سابق ممبر ریٹائرڈ کرنل لارنس ولکرسن نےایک انٹرویو میں امریکی پالیسیوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے 2002 سے2008 تک تشدد کو روا رکھا اور دنیا کے سامنے اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اب ہم دوسری ریاستوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے قتل کو بھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ “موجودہ امریکی انتظامیہ جھوٹ بولنے دھوکہ دہی اور چوری کرنے جارہی ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے ریاستی سیکرٹری مائیک پومپیو، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ، دفاعی سیکریٹری مارک ایسپر اورسینیٹرلنڈ سے گراہم ہیں”۔

کئی امریکی عہدیداروں نے دعوی کیا ہے کہ جارج ڈبلیو بش، ڈک چینی اور ڈونلڈ رمز فیلڈ، جنہوں نے 21 ویں صدی کی مشرق وسطی کی جنگوں کاآغاز کیا ہے، نے جان بوجھ کر 2003 میں عراق پر حملہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں جھوٹ بولا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں عراقی ہلاک ہوئے اور لاتعداد انسانی المیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جن کے منفی اثرات براہ راست امریکہ پر بھی پڑے ہیں۔

باراک اوباما نے عراق جنگ کی مخالفت کی بدولت 2008 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی یہ کہتے پائے گئے کہ” بش انتظامیہ پرجنگی جرائم کا الزام بے بنیاد ہے”۔

آٹھ سالوں تک اوباما اپنے عہدے پر رہے لیکن انہوں نے نہ صرف جنگوں کو جاری رکھا بلکہ مہلک ڈرون ٹکنالوجی کے استعمال میں ایسی جدت کی جس کا ایک بار شکار ہونے والی آبادی میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہوگئی۔ یہ ریاستی دہشت گردی کی مثال ہے جسے جنگی جرائم کی ہی ایک نئی شکل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔